إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کے سوا چند بتوں ہی کی تو عبادت کرتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑ تے ہو۔ بلاشبہ اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو تمھارے لیے کسی رزق کے مالک نہیں ہیں، سو تم اللہ کے ہاں ہی رزق تلاش کرو اور اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔
ابراہیم کے مواعظ توحید ف 1: ان آیتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وعظ مذکور ہے ۔ کہ کیونکر انہوں نے قوم کے بت پر ستانہ خیالات کی تردید فرمائی * ارشاد ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوج رہے ہو ۔ جن میں کوئی حقیقت نہیں ۔ اور جن کی تم پرستش کرتے ہو ۔ یقینا وہ رزق کے مالک نہیں ۔ اگر رزق حاصل کرنا ہے ۔ تو اللہ کے پاس آؤ۔ اور اس کا شکر ادا کرو ۔ یعنی کشائش رزق کی تمام راہیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اور اسی کے قبضہ اختیار میں ہے ۔ کہ جس کو چاہے فراوانی کے ساتھ دے اور جس کو چاہے تان شبیہ تک محتاج کردے ۔ اس کے بعد فرمایا ۔ اگر تم اس پیغام کونہ مانو ۔ تو میں تم کو مجبور نہیں کرتا ۔ تم سے پہلے بھی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی ۔ اور تکذیب کی سزا پائی ۔ میرا فرض تو صرف یہ ہے ۔ کہ اللہ کے احکام بلا کم وکاست تم تک پہنچادوں * لایسلکون لکم رزقا میں لفظ رزق کو تنکیر کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور جب اس رزق کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے تو الرزق کہا ہے ۔ یعنی بصورت معرفہ ۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ نکرہ جب معرض نفی میں ہو ۔ تو عموماً نفی کا فائدہ دیتا ہے معنے یہ ہوں گے ۔ کہ تمہارے معبودوں کے پاس تو کسی نفع کا رزق موجود نہیں ۔ اور معرفہ ہونے کی شکل میں استغراق مدنظر ہے ۔ یعنی ہر قسم کا رزق اللہ کے اختیار میں ہے *۔