وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُم بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُم مِّن شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور جن لوگوں نے کفر کیا انھوں نے ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے کہ تم ہمارے راستے پر چلو اور لازم ہے کہ ہم تمھارے گناہ اٹھا لیں، حالانکہ وہ ہرگز ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں، بے شک وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔
لا تزروازرۃ وزرا اخریٰ ف 2: بات یہ ہے کہ جب منکرین اسلام مسلمانوں کو کہتے ۔ کہ تم باجود افلاس وغربت اور تکالیف ومصائب کے اسلام کی امانت عزیز کو کیوں سینوں سے چمٹائے ہوئے ہو ۔ اور کیا وجہ ہے ۔ کہ تم ہمارے ساتھ نہ مل کر مادی لذائذ سے محروم رہو : تو مسلمان کہتے کہ یہ تمہارا کہنا درست ہے ۔ کہ اسلام کو ترک کرکے ایک گونہ دنیا کی مسرتیں حاصل ہوجاتی ہیں ۔ مگر آخرت اور عقلی میں کیا ہوگا ۔ وہاں کون شخص اللہ کے عذاب سے چھڑائیگا ۔ اور کون ہے جو وہاں کی کفالت لیتا ہے اور عذاب سے رہائی کا ٹھیکہ دار بنتا ہے ۔ تو اس پروہ نہایت دیدہ دلیری مگر بیوقوفی سے کہتے کچھ بڑا * نہیں ۔ تم ہمارے مسلک کفر وگمراہی کو قبول کرلو ۔ ہم تمہارے گناہوں کا ذمہ لیتے ہیں ۔ ارشاد ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے یہ لوگ ان مسلمانوں کو گناہوں کے بارے تو کیا مخلصی عطا کریں گے البتہ خود اپنی پیٹھ پر اپنے گناہوں کے علاوہ ان کے گناہ بھی لاد دینگے اور دگنے عذاب کے مستحق ہوں گے *۔ معلوم ہوا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے گناہوں کی ذمہ داری کوئی شخص نہیں اٹھاسکتا ! اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کے گناہوں کو بخشوا دونگا ۔ کیونکہ گناہ کا تعلق براہ راست ہر فرد سے ہے ۔ اور ہر فرد اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہے * حل لغات :۔ وما ھم بحاملین سے مراد یہ ہے کہ وہ گناہگاروں کے بوجھ کو ہلکا نہیں کرسکیں گے *