لم
الم۔
انبیاء منصب نبوت کے امیدوار نہیں ہوتے ف 1: انبیاء علیہم السلام کو جو منصب نبوت سے نوازا جاتا ہے ۔ تو اس طرح نہیں ۔ کہ وہ نبوت ورسالت کے امیدوار ہوتے ہیں اور بتدریج نبوت کے درجہ علیا تک ترقی کرلیتے ہیں ۔ بلکہ اس طریق سے نبوت عطا کی جاتی ہے کہ ان کو پہلے سے مطلقاً معلوم نہیں ہوتا ۔ اور یکایک قدرت حق ان کو منتخب کرلیتی ہے ۔ اور وہ معارف ونکات کا دریا بہانے لگتے ہیں ۔ ہاں یہ درست ہے ۔ کہ نبوت کی استعداد کا ہونا انبیاء میں ضروری ہے ۔ تاکہ ان میں اور دوسرے لوگوں میں ایک قسم کا امتیاز ہو ۔ ارشاد ہے کہ آپ کو پہلے سے توقع نہیں تھی ۔ کہ نبوت کی گرانبار ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ڈال دی جائیں گی ۔ یہ تو آپ کے رب کا فضل اور اس کی مہربانی ہے ۔ کہ اس نے آپ کو ان خدمات پر مامور فرمایا ہے * یہ واضح رہے کہ قرآن میں بعض دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو بعینہ امر بیان کیا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان آپ کے اسوہ کی پیروی کریں ۔ اور اپنے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں ۔ مگر جو لوگ قرآن کے اسلوب بیان سے آگاہ نہیں ۔ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں ۔ کہ شاید یہ باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود نہیں ہیں ۔ یا خطرہ تھا کہ ان باتوں کی آپ مخالفت کریں گے ! اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو بصورت اوامروا احکام پیش کیا ہے * مثال کے طور پر ان آیات پر غور کیجئے ۔ ان میں چار باتیں بیان کی گئی ہیں * (1) آپ کافروں اور مجرموں کی تائید نہ فرمائیے *(2) اللہ کے احکام کی پیروی سے یہ لوگ آپ کو روک نہ دیں *(3) ایک اللہ کی دعوت دیتے رہیے ! اور شرک نہ کیجئے *(4) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو سا بھی سمجھ کر نہ پکارا کیجئے ظاہر ہے کہ یہ اسوہ ہے احکام نہیں ہیں آپ نے ساری زندگی میں کبھی جرم اور گناہ کی تائید نہیں فرمائی ۔ کبھی احکام کی پیروی میں تغافل نہیں فرمایا ۔ ہمیشہ ایک اللہ کی دعوت دیتے رہے ۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ کہ آپ نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا ہو * ان حالات میں بعض بدباطن مشنریوں کا ان آیات سے غلط استفادہ کرنا ۔ اور کہنا ۔ کہ معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان گناہوں کے صدور کا احتمال تھا ۔ اس لئے ان سے روکا گیا ہے ۔ محض نادانی اور علوم قرآن سے ناواقفیت ہے *