إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔
ف 2: اہل کتاب کے اس صفت شعار گروہ کے ساتھ ایک ایسی جماعت بھی تھی ۔ جو قرآن کی روشنی سے دلوں کی ظلمتوں کو دور کرنا چاہتی تھی ۔ اور حضور کی یہ انتہائی خواہش تھی کہ لوگ بھی اسلام کی ضیاباریوں سے دماغوں کو منور کرلیں قرآن نے کہا ۔ اور آپ ہدایت کی جانب دعوت دے سکتے ہیں اور یہ کرسکتے ہیں ۔ کہ صبح وشام انہیں ان کے اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرتے رہیں ۔ مگر توفیق ہدایت آپ کے بس کی بات نہیں ۔ یہ آپ کے اختیار سے باہر ہے ۔ کہ جس کو چاہیں دائرہ فلاں و فوز میں شامل کرلیں ۔ اور اس کے سینے کو حق وصداقت کے لئے کھول دیں ۔ مفسرین کی رائے ہے ۔ کہ یہ آیت عام نہیں ہے ۔ بلکہ ابوطالب سے متعلق ہے ۔ کہ ہرچند حضور نے ان سے کہا ۔ چچا ایک دفعہ تو میرے سامنے توحید ورسالت کی گواہی دے دیجئے مگر انہوں نے جانتے بوجھتے یہی کہا ۔ کہ بھتیجے یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ میں اعیان قریش کی مخالفت کروں ۔ اور اسلام قبول کرلوں گویا باوجہ اعتراف علم اور حضور کی خواہش کے ابوطالب رشدو ہدایت کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے توفیق واستعداد ذاتی نہیں ہوئی تھی ۔ اور خدا کو منظور نہیں تھا ۔ کہ ابو طالب دنیا سے ایمان وایقان کی دولت لے کر جاتے *