سورة البقرة - آیت 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بے شک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جنت (ف ١) ودوزخ کی حقیقت : جس طرح دنیا میں دو جماعتیں ہیں ، ایک ماننے اور عمل کرنے والی ، دوسری انکار کرنے والی اور فسق وفجور میں مبتلا رہنے والی ۔ اسی طرح اللہ کی رضا اور غضب کے دو مقام ہیں ، دوزخ یا جہنم نام ہے کے مقام غضب وجلال کا اور جنت کہتے ہیں اس کی رضا ومحبت کے مظہر اتم کو ۔ چونکہ انسان روح ومادہ سے مرکب حقیقت کا نام ہے اور اس میں دونوں کے الگ الگ مقتضیات ہیں ‘ اس لئے ضروری ہے کہ سزا اور جزا میں دونوں چیزوں کا خیال رکھا جائے ، نہ صرف مادہ متاثر ہو اور نہ صرف روح منفعل ۔ قرآن حکیم نے اس نکتے کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، وہ کہتا ہے جہنم میں تمہارے جسم کو بھی ایذا دی جائے گی اور تمہاری روح کو بھی ، اسی طرح جنت میں صرف روحانی کوائف نہ ہوں گے ، بلکہ جسمانی لذائذبھی ہوں گے ، مگر پاکیزگی اور نزاکت کے ساتھ ، وہ تمام چیزین جو ہمارے لئے باعث سرور وعیش ہیں ‘ وہاں ملیں گی ، مگر اس طور پر کہ ہم نہ پہچان سکیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں وہ کچھ ملے گا جسے ان کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جن کے متعلق ان کانوں نے کچھ نہیں سنا اور اب تک وہ انسان کے دل میں بھی نہیں کھٹکا ، مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ۔ ایک تمثیل : جنت کا ذکر کرکے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق وصداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے ، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف ‘ پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں ۔ سورۃ مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کرکے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے ۔ (آیت) ” ماذا اراداللہ بھذا مثلا “۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت ودوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے ، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنے لئے جائیں ۔ واللہ اعلم ۔ حل لغات : جنت : جمع جنۃ ، باغ ۔ محفوظ ۔ خلدون ۔ جمع خالد ، ہمیشہ رہنے والا ۔ مادہ خلود بمعنی دوام ۔