وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ
اور شاعر لوگ، ان کے پیچھے گمراہ لوگ لگتے ہیں۔
ف 2: حضور کے متعلق ایک شبہ یہ بھی تھا کہ آپ شاعری میں اور محض دقیق قسم کی باتوں سے لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے ہیں ۔ ورنہ دراصل ان میں کوئی صداقت نہیں * ارشاد فرمایا ۔ کہ تم لوگ منصب الموت سے آگاہ نہیں ۔ تم جانتے کہ کہ نبوت کس قدر اعلیٰ درجے کی چیز ہے ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ شعراء کس قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ان کا اتباع یس قماش کے لوگ کرتے ہیں ! نبوت اور شعاری میں کیا نسبت ۔ نبوت تو سراسر عمل کا نام ہے ۔ اور شاعری ہمہ گمراہی وبے عملی ۔ الشعراء کا کوئی خاص نصب العین نہیں ہوتا ۔ وہ محض بیکار اور بےعمل لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ہر رو میں بہ جاتے ہیں ۔ بخلاف اس کے انبیاء سراپا فکر کا مجسمہ اور نہایت سلیم الطبع ہوتے ہیں ۔ اور ان کے سامنے ایک نصب العین بھی ہوتا ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں *۔ اس آیت سے نفیس شاعری کی مذمت مقصود نہیں ۔ بلا شعراہ کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کرنا منظور ہے تاکہ معلوم ہوجائے ۔ کہ نبوت اور شاعری میں مابہ الامتیاز کیا ہے ! الغاون غاو کی جمع ہے ۔ کمینے گمراہ *۔