سورة الشعراء - آیت 126

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قوم عاد کی تباہی ف 1: انسانی فطرت کا عام قانون ہے ۔ کہ جب انسان کو مال ودولت سے بہرہ وافر قرار دیا جائے ۔ اور اس کی اہلیت سے زیادہ اس کو نوازا جائے ۔ تو پھر یہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے ۔ اور اس میں تفافر وتکبر کے جذبے ۔ دنیا کو دائمی اور ابدی سمجھنے کا تخیل اور تفردو اختصاص کے ولولے پیدا ہوجاتے ہیں *۔ چنانچہ حضرت ہود مبعوث ہوئے ۔ تو قوم عاد کی بالکل یہی کیفیت تھی ۔ مال ودولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے ۔ یہ ہر بلندی پر عیش وعشرت کے قصر تعمیر کرتے ۔ تاکہ یہ ان کی عزت اور وقعت کے نشان قرار پائیں ۔ اور وہ بڑے بڑے قلعے بناتے ۔ تاکہ نفس کو یہ فریب دے سکیں ۔ کہ یہ مقام عارضی و فانی نہیں ۔ بلکہ آفات وبلیات سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رہنے والا ہے ۔ اور اختصاص انقرہ کے لئے عام لوگوں پر سختی کرتے اور یہ چاہتے کہ تمام راحتیں اور امام ان کی قوم سے مختص ہوجائیں *۔ حضرت ہود نے ان کی اس مادیت پرستی کو دور کرنے کے لئے تقویٰ کا نسخہ تجویز فرمایا ۔ اور ان کو یقین دلانے کی کوشش کی ۔ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور تم سے کسی معاوضے کا طالب نہیں ! کیونکہ معاوضہ طلب کرنے کی صورت میں تبلیغ بالکل بےاثر ہوجاتی ہے *۔ یہ واضح رہے ۔ کہ پیغمبر دنیا والوں سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا ۔ اور نبوت کو جلب متخت کا ذریعہ نہیں بناتا ۔ وہ خالصتہً اللہ کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیتا ہے ۔ اور اپنی خدمات اس کے حضور میں پیش کردیتا ہے ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ دنیا طلب میں اس کو بھی عام انسانوں کی طرح دوڑتا ہوا دیکھیں ۔ وہ دولت کو تقسیم کرنے کے لئے آتا ہے ۔ دولت کو سمیٹنے کے لئے نہیں آتا ۔ اس کا نصب العین یہ ہوتا ہے کہ ماننے والوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات پیدا کئے جائیں اور ان کے دلوں میں مادیت کے خلاف نفرت وحقابرت کا جوش پیدا کیا جائے *۔