يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! لازم ہے کہ تم سے اجازت طلب کریں وہ لوگ جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوئے اور وہ بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہیں پہنچے، تین بار، فجر کی نماز سے پہلے اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین تمھارے لیے پردے (کے وقت) ہیں، ان کے بعد نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر۔ تم پر کثرت سے چکر لگانے والے ہیں، تمھارے بعض بعض پر۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
غلاموں اور نوکروں کیلئے قواعد : (ف ١) ان میں پھر سورۃ نور کے اصل موضوع کی طرف رجوع فرمایا ہے سورۃ کا اصل موضوع تمدن انسانی کے مسائل مہمتہ کو بیان کرنا ہے ، اور یہ بتانا ہے کہ اخلاق حسنہ اور عوائد رسمیہ میں کون کون سی باتیں داخل ہیں ، قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ موضوع کی تفصیلات میں بھی تنوع کو باقی رکھتا ہے ، اور صرف مسئلہ کے مالہ وما علیہ پر عموما بحث نہیں کرتا ، کیونکہ اس طریق سے قرآن سے میں جو ایک جاذبیت اور وسعت معانی ہے ، وہ جاتی رہتی ہے تنوع کابہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا بےتکان پڑھتا چلا جاتا ہے ، اور طبیعت میں کسی نوع کا تکدر پیدا نہیں ہوتا اور اس کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوتی ہے ، جو ایک سرسبزوشاداب مقام سے گزر رہا ہو ، کہیں سبزہ ہے تو ، کہیں پھول ، کہیں اونچے اونچے درخت اور دریا ہیں ، تو کہیں پہاڑ اور چشمے نظر آتے ہیں جس طرح یہ شخص ان بوقلمون اور گوناگون نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہے اسی طرح قرآن پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ کہاں مضامین ومعانی کا گلزار کھلا ہوا ہے ، کہیں توحید کے دریا بہہ رہے ہیں کہیں حشر ونشر کے مذکور اور کہیں اخلاق کا ذکر ہے تو کہیں معاشرت انسانی کی مشکلات کا اسی طرح سارے قرآن میں یہ دلچسپیاں قائم رہتی ہیں ، سورۃ نور کی ابتداء تعارف سے ہوتی ہے پھر حدود زنا کی تفصیل ہے پھر مسئلہ لعان ہے اس کے بعد حدیث افک ، پھر پردہ کے مسائل ہیں ، اور نکاح کا فلسفہ اور حکمتیں ، اس کے بعد مکاتیب کا ذکر ہے اور درمیان میں اللہ کے اقرارآگئے ہیں ، اسی طرح برابر تنوع چلا رہا ہے ۔ اس آیت میں پردہ سے متعلقہ دوسرے مسائل کی تشریح فرمائی ہے ۔ عام طور پر گھروں میں بچے اور عورتیں کام کاج کرتی ہیں ، اور بےتکلف ان کا گھروں میں آنا جانا رہتا ہے ، بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ملازم اچانک اندر آ جاتا ہے ، جب کہ آپ اس کا سامنا نہیں چاہتے ، تو اس حالت میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دونوں شرمندہ ہوجاتے ہیں ، ۔ قرآن حکیم نے اس سلسلے میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ نماز صبح سے پہلے ، دوپہر قیلولہ کے وقت اور عشاء کے بعد اگر ان لوگوں کو اندر آنا ہو ، تو باقاعدہ اجازت لے کر آئیں ، کیونکہ یہ اوقات سونے اور آرام کرنے کے ہیں ، اور ان اوقات میں آدمی سارے کپڑے عموما نہیں پہنتا ہے ، یا کپڑے اور پردہ کی جانب سے غافل ہوتا ہے اس لئے خطرہ ہے کہ بےپردگی نہ ہوجائے ۔ حل لغات : القواعد : بڑی بوڑھی عورتیں ، جو بےچاری زیادہ ہل جل نہ سکیں ۔ غیر متبرجت بزینۃ : یعنی اس نوع کی عورتوں کو عموما زیادہ سخت پردے کی ضرورت نہیں ہوتی ، تاہم ان کو بھی محتاط رہنا چاہئے ۔