اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے، جس میں ایک چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا چمکتا ہوا تارا ہے، وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون سے روشن کیا جاتا ہے، جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل قریب ہے کہ روشن ہوجائے، خواہ اسے آگ نے نہ چھوا ہو۔ نور پر نور ہے، اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اللہ نور ہے : (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمینوں کے نور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے ، اور قندیل ایسی صاف اور چمکدار ہے گویاموتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ، اس میں برابر یکسان روشنی ہے نہ شرقی ہے اور نہ غربی تیل اس طرح کا مصفا کہ بغیر آگ جلنے کے تیار ہے ظاہر ہے کہ ایسی روشنی تیز ہوگی ، واضح ہوگی دور تک پہنچنے والی اور پاکیزہ ہوگی پس اپنے نور سے جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھلاتا ہے ، کیونکہ اللہ کی ذات ہر قسم کی تشبیہ سے پاک ہے ۔ (آیت) ” لیس کمثلہ شیئ“۔ چنانچہ آیت کے اختتام پر ارشاد ہے ۔ (آیت) ” یھدی اللہ لنورہ من یشآئ“۔ یعنی اس کا پیغام بہت روشن ہے منور ہے ، تابناک ہے ، اور گمراہیوں اور ظلمتوں کی تاریکیوں کو دور کرنے والا ہے جس کو چاہتا ہے اس نور سے کسب ضوء کا موقع دیتا ہے ۔ (آیت) ” ویضرب اللہ الامثال للناس “۔ اور اللہ ان تشبیہات کو مثالوں کے طور پر بیان کرتا ہے تاکہ اہل علم اکتساب معرفت کرسکیں ، اور وہ ہر چیز سے آگاہ ہے ۔ ہو سکتا ہے نور سے مراد یہ ہو کہ اللہ اپنی کائنات کیلئے مدبر ہے باعث رونق ہے ، روشنی ہے ۔ جررکہتا ہے ۔ ” وانت لھا نور وغیث وعصمۃ “۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ جس طرح نور اور روشنی سے تمام اشیاء متجلی ہوجاتی ہیں ، اور سب کچھ نظر آنے لگتا ہے ، اسی طرح اللہ زمین آسمان کیلئے بمنرلہ نور کے ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کو نہ تسلیم کیا جائے تو پھر کائنات کا نظام درہم وبرہم ہوجاتا ہے ، اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دیتی ہے ، اور انسان علل ومعلولات کے غیر متناہی سلسلہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ بحث میں علت تاجلول کی ہر عقل علیل : اور اگر اس پر ایمان رکھا جائے اور اس کی ذات کو خالق اور رب مان لیا جائے تو کائنات کی تمام گتھیاں سلجھ جاتی ہیں ، اور کسی گوشہ میں تاریکی نہیں رہتی ۔ (آیت) ” ولولم تمسسہ نار “۔ میں قرآن حکیم نے ایک ایسی حقیقت کو بیان کیا ہے جس کا اظہار آج چودہ سوسال بعد ہوا ہے ۔ غور فرمائیے ، عربی لٹریچر میں چراغ کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں چنانچہ مصباح خاص خوبی اشتقاق کی رو سے صحیح نہیں ، یہ حبشی زبان کا لفظ ہے سراج فارسی سے معوب کیا گیا ہے یہ اس لئے کہ عربوں کا تمدن بہت سادہ تھا اور وہ کھلے میدانوں اور خیموں میں رہتے تھے اور روشنی کیلئے وہ آگ کو کافی سمجھتے تھے مگر قرآن ایک ایسا تخیل پیش کررہا ہے جو شیشے میں ہے اور سب طرف برابر نور پھینک رہی ہے ، نہ شرقی ہے نہ غربی جس میں ایسا تیل ہے جو بغیر آگ دکھانے کے جلتا ہے غور کیجئے کیا یہ بجلی اور قمقمہ کا اولین تصور نہیں ، اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ علم اور بالغ نظری کیا کسی انسانی کلام میں ہو سکتی ہے ۔