سورة النور - آیت 33

وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور لازم ہے کہ حرام سے بہت بچیں وہ لوگ جو کوئی نکاح نہیں پاتے، یہاں تک کہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے اور وہ لوگ جو مکاتبت ( آزادی کی تحریر) طلب کرتے ہیں، ان میں سے جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہیں تو ان سے مکاتبت کرلو، اگر ان میں کچھ بھلائی معلوم کرو اور انھیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمھیں دیا ہے، اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں، تاکہ تم دنیا کی زندگی کا سامان طلب کرو اور جو انھیں مجبور کرے گا تو یقیناً اللہ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

غیر شادی شدہ لوگوں کے لیے ایک نسخہ : (ف ٢) یعنی جو لوگ شادی شدہ کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ جذبات پر قابو رکھیں حضور نے فرمایا یا معشر الشباب من استطاء منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض البصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فان الصوم لہ وجاء ۔ (ترجمہ : نوجوانو ! تم میں جو لوگ شادی کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ ضرور شادی کریں کیونکہ اس طرح انسان کا کرکٹر محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور جو شادی کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ روزے رکھیں ، کیونکہ اس طریق سے ضبط نفس کا سامان پیدا ہوجاتا ہے ۔ غلامی اور مکاتبت : (ف ١) اسلام غلامی کو طبعا ناپسند کرتا ہے اس لیے اس نے غلامی کے متعلق ایسی شروط و قیود کا اضافہ کردیا ہے کہ اس سے عملا یہ مفقود ہوجائے ۔ مکاتبت کے معنی ہوتے ہیں کہ غلام سے کہہ دیا جائے کہ تو اگر اتنی رقم مجھ کو ادا کردے تو آزاد ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ باحیثیت مسلمان جس کے ہاں غلام ہیں ان سے اگر وہ مکاتبت کی درخواست کریں تو ان کو چاہیے کہ وہ قبول کرلیں جبکہ یہ بھی چاہیے کہ اس سلسلہ میں ان کی مدد کریں اور اپنی طرف سے بھی دیں ۔ ان اردن میں تحصنا کی قید واقعی ہے ، احترازی نہیں ، یعنی بعض لونڈیاں چاہتی تھیں کہ عفت و عصمت کی زندگی بسر کریں مگر ان کے مالک انہیں بدکاری پر مجبور کرتے تھے ، قرآن کہتا ہے کہ اگر ان کے دل میں بدکاری کے خلاف نفرت کا جذبہ موجود ہے تو تم کیوں ان کو اس ذلیل کام پر مجبور کرتے ہو ، کیا تم دنیوی مال و دولت کے لیے ایک عفیف لونڈی کو زنا پر ابھارتے ہو ، کہ وہ اس طرح تمہیں کما کر کھلائے ۔ غفور رحیم کا تعلق لونڈیوں سے ہے یعنی ان کے مالک اگر ان کو مجبور کریں اور وہ دل میں اس کو ناپسند کرتی ہوں اور نفرت و بیزاری کا اظہار کرتی ہوں تو پھر اللہ ان کی معذوریوں سے آگاہ ہے ۔ حل لغات : تحصنا : پاکبازی ۔ مشکوۃ : روشنی کا طاق ، چراغ اور قندیل رکھنے کا فراخ طاق ۔ مصباح : دیا ، چراغ ۔