وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں، عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں سے جو نیک ہیں ان کا بھی، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
نکاح ایک مدنی ضرورت ہے : (ف ١) الا یای کا لفظ عام ہے ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو ، اس طرح ہر اس عورت کو کہتے جس کے خاوند نہ ہو ، یہ ایم کی جمع ہے حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے زوجوا ایامکم “۔ ایک شاعر کہتا ہے ۔ فان تنکحوا الکم وان تتایمی وان کنت امتی منکم اتائم : یعنی اگر تم شادی میرے ساتھ منظور کرلو گی تو میں بھی منظور کرلوں گا ورنہ باوجود تم سب سے زیادہ طاقتور ہونے کے میں کنوار رہوں گا ، آیت کا مقصد ہے کہ نکاح چونکہ شرعی واخلاقی لحاظ سے سوسائٹی کی بہت بڑی خدمت ہے اس لئے ہر مسلمان اور ہر عورت کو شادی شدہ ہونا چاہئے خطاب اولیاء سے ہے ، ان یکونوا فقرآئ“۔ سے غرض یہ نہیں کہ نکاح یہ شادی کے بعد اللہ تعالیٰ ضرور افلاس کو دور کردیں گے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس میں مال و دولت کو بہت زیادہ اہمیت نہ دو ۔ اور اللہ سے توقع رکھو کہ وہ تمہارے حالات کو بدل دے گا ۔ اور تمہارا افلاس دور ہوجائے گا ۔