الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے، سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمھیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو۔
(ف ١) تمام مذاہب نے زنا کو انسانیت کیلئے بہت بڑی لعنت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو وجود قوموں کیلئے اخلاقی تباہی کے مترادف ہے قرآن حکیم نے خصوصیت کیساتھ اس مسئلے کی متعلقہ تفصیلات بیان کی ہیں اور اس کے ذرائع و وسائل تک کا استقصاد و احوا کیا ہے قرآن کی نگاہیں دوسری مذہبی کتابوں سے کہیں دیادہ عمیق ہیں اس نے تمام انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر ایسے قوانین اور ضابطے مقرر فرمائے ہیں کہ ان کو ملحوظ رکھنے کے بعد زنا کا احتمال قطعا پسند نہیں ہوتا ۔ اس آیت میں زنا کی حد شرعی سے بحث فرمائی ہے ارشاد ہے کہ زانی کے سودرے لگائے جائیں اور اس معاملہ میں سوسائٹی جذبات رحم ورافت سے بالکل متاثر نہ ہو ، یہ سو درے جمع عام میں لگائے جائیں تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت وتذکیر حاصل ہو ۔ زانی سے مراد یہاں وہ شخص ہے جو کنوارا زانی ہو ، بیا ہے ہوئے کیلئے اسلامی سزا رجم ہے ۔ خوارج نے رجم کا انکار کیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ یہ سزا ہر دو قسم کے زانیوں کے لئے ہے ان کے دلائل یہ ہیں ۔ (١) الزانیۃ والزانی “۔ میں کوئی تخصیص نہیں ، بلکہ عموم واستغراق مراد ہے ۔ (٢) اگر رجم کی سزا مقرر ومتعین ہوتی تو اس کو قرآن حکیم میں موجود ہونا چاہئے تھا ۔ (٣) رجم کو ماننے کی شکل میں یہ لازم آئے گا کہ نص میں خبر واحد کی تخصیص کی جائے جو درست نہیں ۔ بعض موجودہ زمانے کے روشن خیالی مفسرین کے دلائل بھی تقریبا یہی ہیں جوابات یہ ہیں ۔ ١۔ قرآن حکیم نے یہاں بیشک صرف ” الزانیۃ اور الزانی “ کا ذکر فرمایا ہے ، مگر سنت ، تواتر اور اسلامی فیصلوں سے جو کتب فقہ اور تاریخ میں مذکور ہیں ، یہ ثابت ہے کہ رجم اسلامی سزا ہے کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ محض اس بنا پر کہ قرآن میں واضح الفاظ میں رجم کا ذکر نہیں ، ہم پوری اسلامی تاریخ کو جھٹلا دیں ، صحابہ کے فیصلوں کو غلط قرار دیاں رسول کے احکام کو ٹھکرائیں اور علمی وعملی تواتر کا انکار کردیں ۔ ٢۔ رجم کی سزا یقینا قرآن میں موجود ہے مگر اس نہج پر نہیں جس طرح خوارج یا اس زمانے کے متنورین دیکھنا چاہتے ہیں ، بلکہ اشارہ اور برسبیل استطراد قرآن میں رجم کی سزا موجود ہے کیا انکو معلوم ہے کہ عہد رسالت میں اہل کتاب سے اس معاملہ میں بحث ہوئی تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ توراۃ لاؤ اور پڑھو ، اگر تم میں صداقت ہے تو تسلیم کرلو گے کہ اس میں رجم کی سزا کا حکم موجود ہے مگر انہوں نے آیات باب رجم کو چھپایا اور جب حضرت عبداللہ بن سلام نے بڑھ کر انکی چالاکی کا بھانڈا پھوڑ دیا تو وہ نادم ہوگئے اس پر ان کے جذبہ کتمان حق کے متعلق آیات کا نزول ہوا کیا یہ آیتیں رجم کی تائید میں نہیں ؟ اگر سوال اپنی جگہ پر ہنوز باقی ہے کہ اس قدر ضروری حکم کو قرآن نے بالتصریح کیوں ذکر نہیں کرا اور سزا کنواروں کے متعلق حد شرعی کے اعلان کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کا انداز بیان کچھ دوسروی کتابوں سے مختلف ہے ، اور وہ لوگ جو اس کی خصوصیات سے آگاہ نہیں ہوتے اس قبیل کی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ قرآن میں اکثر ان باتوں کا ذکر ہے جو گو اپنی جگہ پر اہم نہ ہوں مگر اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ نئی اور جدید ہیں ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ نماز بہت اہم مسئلہ ہے ، اور اس کے قیام پر قرآن نے بہت زور دیا ہے مگر سارے قرآن میں اس کی ترتیب اور تفصیل بیان کردی ہے کیونکہ نماز کے متعلق اسلام نے بہت زیاہ جدتوں سے کام نہیں لیا ، اس کا تخیل اسلام سے قبل صابیوں میں اور خدا پرستوں میں موجود تھا ، مجوسی بھی تقریبا اسی قسم کی نماز کے قائل تھے ، اس لئے اللہ نے اس کی تفصیلات بیان فرما دیں ، اسی طرح رجم کی سزا میں پند شرائع کا قریبا اتفاق تھا اس لئے قرآن نے بالتخصیص اس کا ذکر نہیں فرمایا ، البتہ کنوارے کی سزا کی تخصیص چونکہ قرآن کو مقصود تھی ، اس لئے اس کا اظہار کردیا ۔ ٣۔ جواب کی اس نوعیت کے بعد تیسرا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔