سورة المؤمنون - آیت 76

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انھیں عذاب میں پکڑا، پھر بھی وہ نہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے تھے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف4) اس عذاب کے تعین میں مفسرین کا اختلاف ہے اور مندرجہ ذیل واقعات اس سلسلے میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ 1۔ ثمامہ بن اثال نے جب اسلام قبول کیا ، تو اس نے یمامہ جا کر مکہ والوں کا غلہ روک لیا ، نتیجہ یہ ہوا ، کہ سخت قحط پڑا ، اور بڑے بڑے صنادید قریش بھی مارے بھوک کے بلبلا اٹھے ، ابو سفیان نے حضور (ﷺ) سے کہا ، کیا آپ رحمۃ اللعالمین نہیں ہیں ؟ حضور (ﷺ) نے فرمایا کیوں نہیں اس نے کہا تو اللہ سے دعا کیجئے ، قحط دور ہو ، حضور (ﷺ) کا دریائے رحمت جوش میں آگیا آپ نے دعا کی اور قحط رفع ہوگیا ، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ 2۔ بدر کے دن جو ذلت ورسوائی قریش کے حصہ میں آئی تھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ باوجود شکست فاش دینے اور اسلام کی فتح وکامیابی کے ان کے دلوں میں کوئی تاثر پیدانہیں ہوا ، اور یہ قطعا نہیں پسیجے ۔ 3۔ عام دنیوی مشکلات مراد ہیں کہ یہ لوگ روزانہ مصائب وحوادث سے دوچار ہوتے ہیں ، مگر رجوع الی اللہ کا جذبہ انکے دلوں میں پیدا نہیں ہوتا ۔