إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف تو انھوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔
آزادی ہر شخص کا انسان حق ہے : (ف ١) جن لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا ، ان میں فرعون اور اس کی قوم بھی تھی یہ نہیں تحقیق ہوسکا کہ یہ کون فرعون تھا ، البتہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے تقریبا چار سو سال بعد مصر میں بنی اسرائیل کی حالت بہت خراب تھی وہ ہر طرح غلامی کی لعنتوں میں گرفتار ہوگئے فرعون نے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کو ہر نوع کی خوبیوں سے محروم رکھا ، ان کے جذبات غیر وحمیت کو کچل دیا اور مفلس اور نادار بنادیا تاکہ وہ ہمیشہ فرعون اور اس کی قوم کے محتاج رہیں ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کو آیات ومعجزات دیکر بھیجا ، تاکہ وہ بنی اسرائیل میں روح بیداری پھونکیں ، اور ان کو فرعون کے چنگل سے چھڑائیں ۔ چنانچہ انہوں نے فرعون سے کھلے بندوں مطالبہ کیا ، کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ، ہم بنی اسرائیل کی آزادی وحریت کے کفیل ہیں ہم خدا کا پیغام لے کر آئے ہیں ، اور ایک لمحہ کیلئے بھی تیری خدائی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ فرعون اور اس کی قوم نے یہ مطالبہ سنا تو از راہ تکبر کہنے لگے کیا ہم اپنے جیسے ان دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ، اور ان کی قوم کے لوگ ہمارے خدمت گار ہیں یہ کس طرح ممکن ہے ، علو وبرتری کے تحیل نے فرعون اور اس کے حاشیہ برداروں کو اندھا کردیا ، اور وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ آزادانہ زندگی بسر کرنا قوم کا انسانی حق ہے ، جس کا چھین لینا سراسر ظلم تعدی ہے ، بالآخر اس ظلم اور تکذیب کا نتیجہ یہ ہوا ، کہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ، عین اس وقت جب یہ لوگ بنی اسرائیل کا تعاقب کر رہے تھے دریا کی موجوں نے آلیا ، اور یہ اپنے سازو سامان اور عزت وغرور کے ساتھ غرق ہوگئے ۔