وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا اور کیا تو نے یقین نہیں کیا ؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کرلے۔ فرمایا پھر چار پرندے پکڑ اور انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دے، پھر انھیں بلا، دوڑتے ہوئے تیرے پاس آجائیں گے اور جان لے کہ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ولکن لیطمئن قلبی : (ف ١) انبیاء علیہم السلام ایک مضبوط ومحکم عقیدہ لے کر مبعوث ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں قوت تاثیر نسبتا دوسرے لوگوں کے بہت زیادہ ہوتی ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اسے یقین واثق کی توثیق چاہی جو مشاہدات پر مبنی ہو اور جو قطعی محسوس اور غیر مشکوک ہو ، تاکہ جب وہ نظام آخرت کی طرف لوگوں کو دعوت دیں تو دل کی گہرائیوں کے ساتھ خود بھی اس پر ایمان رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا اس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے کہ مزید مشاہدہ کی ضرورت پڑے ؟ آپ (علیہ السلام) نے جوابا عرض کیا ، ایمان تو موجود ہے ، اطمینان خاطر مطلوب ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایمان مشہود کی ایک صورت پیدا کردی ، فرمایا ، چار پرندے لو انہیں ہلا لو اور ان کے ٹکڑے ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر بلاؤ ، دیکھو قدرت ایزدی سے دوڑے ہوئے آئے گے ، اس کے بعد کا واقعہ محذوف ہے ، اور قرآن حکیم کا عام انداز بیان ہے کہ وہ غیرضروری واقعات کو حذف کردیتا ہے ، اس لئے انہیں خود سیاق کلام سے سمجھا جاسکتا ہے ، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ پرندوں کو ذبح نہیں کیا گیا ، یونہی مانوس کرکے بلایا گیا اور وہ آ گئے جس سے مقصد یہ تھا کہ جس طرح وہ تھوڑے تعلق کی وجہ سے تمہارے پاس آگئے ہیں ‘ اس طرح ہم چونکہ ساری کائنات کے رب ہیں جب بلائیں گے تو انہیں زندہ ہونا پڑے گا اور ہماری طرف آنا پڑے گا ۔ مگر یہ تاویل دو وجہ سے زیادہ قرین یقین نہیں ، ایک اس لئے کہ (آیت) ” کیف تحی الموتی “۔ کا سوال زندگی اور مشاہدہ طلب ہے ، اور ” اطمینان خاطر “ کی غرض کا تقاضا یہ ہے کہ جواب سرسری نہ ہو ۔ دوسرے اس لئے کہ اجعل کا لفظ زندہ پرندوں کے لئے نہیں بولا جاتا ، جزءا کے لفظ میں تو گنجائش ہے ، لیکن اجعل کا لفظ قطعا ناقابل تاویل ہے ، اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے بلند مرتبہ نبی طمانیت قلب کی نعمت سے کیوں محروم تھے اس کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ نبی باوجود جلالت قدر کے انسان ہوتا ہے اور اس میں دو طرح کی نفسیات ہوتی ہیں ، انسانی وبشری اور نبوی و پیغمبرانہ ، اور دونوں تقاضوں کا باہمی اختلاف بالکل ظاہر ہے ، اس لئے گو بحیثیت نبی و پیغمبر ہونے کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حشر ونشر کے کوائف پرپورا پورا ایمان تھا مگر بحیثیت بشروانسان کے وہ چاہتے تھے کہ اس کو دیکھ بھی لیا جائے ۔