سورة الحج - آیت 47

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ تجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اللہ ہرگز اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور بے شک ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عذاب کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہے : (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ عذاب طلب کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ کا غضب جلد بھڑکے ، تاکہ زندگی کی مسرتوں سے یک قلم محروم ہوجائیں ، مگر یہ نہیں جانتے کہ اس کی گرفت کس قدر جان گسل ہوگی اور وہ عذاب اپنی ہولناک کیفیت کے ساتھ کس درجہ دراز ہوگا ۔ اللہ کا عذاب جس کے یہ لوگ طالب ہیں ، اتنا سخت اتنا خوفناک اور اس قدر شدید ہے کہ اس کا ایک ایک دن ہزار سال کی کلفتوں اور اذیتوں کے برابر ہے ۔ اس آیت میں تصریح فرما دی ہے کہ اللہ کا وعدہ عذاب اٹل ہوتا ہے اس میں قطعا تخلف نہیں ہو سکتا کیونکہ تخلف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ معاذ اللہ وعید کی پیشگوئی کرنے والا نبی لوگوں کی نظروں میں ذلیل اور رسوا ہو ۔ وعدہ عذاب کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب قوم میں پنپنے اور اصلاح پذیر ہونے کی صلاحیت نہیں رہی اور گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا ، اس لئے اس وقت قوم کا مٹ جانا اور تباہ ہوجانا ہی منشاء قدرت ہوتا ہے ، اور اس وقت جب عذاب کا وقت مقرر ہوجائے تو توبہ وانابت کا کوئی موقعہ نہیں رہتا ، کیونکہ تعین وقت کا اعلان دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے ، کہ اب قوم کو یقینا اور ضرور عذاب دیا جائے گا اور کوئی طاقت اس کو عذاب الہی سے نہیں بچا سکے گی ، حل لغات : املیت : ڈھیل دی ، املا کے معنی مہلت کے ہوتے ہیں ۔