أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے لیے ایسے دل ہوں جن کے ساتھ وہ سمجھیں، یا کان ہوں جن کے ساتھ وہ سنیں۔ پس بے شک قصہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں اور لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
(ف ٢) یعنی وسوسہ کا تعلق جب دل میں رشد وہدایت کی صلاحیت نہ ہو تو پھر مشاہدات کا انکار بھی ممکن ہے اور اگر یہ مضغہ گوشت ہو تو پھر ادنی اشارات بھی ہدایت کی جانب راہ نمائی کرسکتے ہیں ، بات یہ تھی کہ منکرین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شب وروز دیکھتے تھے ، اور ان کے احوال وعادات سے واقف تھے ، ان کو معلوم تھا کہ ہر وقت اللہ کی تائید آپکے شامل حال ہے اور آپ خدا کے سچے پیغمبر ہیں ۔ وہ ہر آن ملاحظہ کرتے تھے کہ آپ انوار وتجلیات کے حامل ہیں ، اور کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کی تائید میں ہے ، مگر پھر بھی انکار کرتے گویا آفتاب کو دیکھتے اور آنکھیں بند کرلیتے ، اس کی تمازت کو محسوس کرتے ، اور منہ لپیٹے ہوئے غفلت وانکار کے لحاف میں پڑے رہتے ، کیونکہ دلوں سے حق وصداقت کو قبول کرنے کی استعداد چھن چکی تھی دل تاریک ہوچکے تھے اور بصیرت گم ہوگئی تھی ۔