أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ
ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے، اس لیے کہ یقیناً ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقیناً پوری طرح قادر ہے۔
قربانی اور جہاد : (ف ١) یعنی قربانی کے عملی معنے یہ ہیں کہ دلوں میں جذبہ جہاد موجزن ہو ، اگر ہم ہر سال لاکھوں اور کروڑوں حیوانات کا خون بہائیں اور قلوب میں کوئی حرارت اور کوئی جذبہ جہاد پیدا نہ ہو تو پھر یہ عبادت سراسر بےروح اور بےکیف ہوگی ، آیت میں اذن جہاد ہے ، کیونکہ مسلمانوں کی مظلومیت حد سے بڑھ گئی ، اب یہ ناممکن ہے کہ ان مظالم کو زیادہ دیر تک برداشت کیا جائے ۔ ارشاد ہے کہ اللہ نے طے کرلیا ہے کہ مسلمانوں کی اعانت کی جائے اور مشرکین کے غلبہ واستیلا کو دور کیا جائے ، کیونکہ مسلمان مظلوم ہیں اور اسلام کو مظلومیت پسند نہیں ، جس طرح ظلم بڑی چیز ہے اور اسلام اس کو جائز قرار نہیں دیتا ہے اسی طرح مظلومیت بھی ناقابل برداشت ہے ، اور جرم ہے ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی جہاد کی نوعیت کیا تھی ، وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ، ان کو ان آیات پر غور کرنا چاہئے ، کہ اللہ تعالیٰ نے کب اور کس وقت مسلمانوں کو جہاد کا اذن عام دیا ، بےشک اس وقت اجازت دی جب مظالم حد سے بڑھ گئے ، اور مکہ کی سرزمین ان کے لئے تنگ ہوگئی ۔