سورة الحج - آیت 6

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَأَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ اس لیے ہے کہ بے شک اللہ ہی حق ہے اور (اس لیے) کہ بے شک وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور (اس لیے) کہ بے شک وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حشرونشر ایک طبعی حقیقت ہے : (ف1) قرآن حکیم نے حشر ونشر کے عقیدے کو بڑے زور سے بیان کیا ہے کیونکہ یہی ایک عقیدہ ایسا ہے جو دلوں میں ذمہ داری کے احساسات کو بیدار کرسکتا ہے ، اور ہر شخص میں روح عمل پھونک سکتا ہے کیونکہ اس عقیدہ کے معنی یہ ہیں کہ ہر شخص مکافات عمل کے اصول کو تسلیم کرے ، اور مانے کہ اعمال ضائع نہیں ہوتے ، اور حق وباطل کے ثمرات اور نتائج میں واضح اور بین فرق ہے ۔ جو شخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ، اور حشر ونشر کے کوائف کو نہیں مانتا ، وہ ذمہ داری کے قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ، اس کے نزدیک نیکی اور بھلائی دو مہمل لفظ ہیں ، جو بالکل شرمندہ معنی نہیں ، وہ ہر عمل کی بنیاد اپنی خواہشات پر رکھتا ہے ، اور سمجھتا ہے کہ مجھے دنیا والوں سے اور ان کی بھلائی برائی سے کوئی تعلق نہیں ، یہ انکار کا عقیدہ حرص وآز کی آگ کو ہوا دیتا ہے اور انتہا درجہ کی خود غرضی پیدا کردیتا ہے ، آخرت کے انکار کے بعد دنیا میں کسی اعلی تمدن کی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ قدرتا یہ انکار انفرادیت کا حامی اور شخصی اور ذاتی اغراض کا پیدا کرنے والا ہے ۔ مکے والے مجوسیوں کے زیر اثر حشر ونشر پر ایمان نہیں رکھتے تھے انہیں اس عقیدے کی افادیت کا قطعا علم نہ تھا ، اور نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ یہ ایک طبعی حقیقت ہے اصول ارتقاء اور خود زندگی کا مفہوم اس بات کا مقتضی ہے ، کہ یہ زندگی صرف موت تک محدود نہ ہو بلکہ آگے بڑھے ، اور کمال تک پہنچے ، ان کو اس میں بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ موت کے بعد جب روح کا تعلق بدن سے منقطع ہوجاتا ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے ، کہ پھر یہ تعلق قائم ہوجائے ، اور دوبارہ انسان زندگی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوجائے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حکیمانہ اصول کی جانب ان کی توجہ کو مبذول فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ تمہیں قیامت اور حشر ونشر کے متعلق تو شبہ ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ تمہاری زندگی بجائے خود اس سے زیادہ حیرت انگیز انقلاب کی حامل ہے تم روزانہ اس تبدیلی کو دیکھتے اور اس انقلاب کو محسوس کرتے ہو ، مگر تمہیں کبھی یہ شبہ نہیں ہوتا کہ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ تم دیکھتے ہو ، تمہاری زندگی کا دارو مدار مٹی اور پانی پر ہے ۔ سبزیاں اور پھل کھاتے ہو ، مگر تم نے کبھی غور کیا ہے ، یہ سبزیاں اور پھل کیا ہیں ؟ صرف مٹی ، پھر یہ غذا ایک قطرہ آب کی شکل میں تبدیل ہوجاتی ہے کیا یہ تمہاری عقل میں ممکن ہے ؟ پھر یہی قطرہ آب جرثومہ حیات کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ چند منزلوں سے گزرنے کے بعد چیختا چلاتا بچہ پیدا ہوجاتا ہے ، کیا یہ سب باتیں آپ کی سمجھ میں آتی ہیں ؟ پھر یہ دو بالشت کا بچہ کڑیل جوان ہوجاتا ہے ، اور جوانی کے نشہ میں خدا کا بھی انکار کرنے لگتا ہے ، پھر جوانی کی کڑی کمان جھک جاتی ہے اور بڑھاپا پھٹ پڑتا ہے ، بتائیے کیا یہ انقلابات ایسے ہیں کہ ان کو کما حقہ سمجھ سکیں ؟ یاد رکھو ، حشر ونشر بھی اسی طرح کا ایک طبعی انقلاب ہے جو اسی طرح ممکن ہے جس طرح یہ روز مرہ کے واقعات پھر تم یہ بھی دیکھتے ہو کہ ایک وقت زمین خشک ہوتی ہے ، اور روئیدگی اور سبزے سے قطعی محروم مگر بارش کے چند قطرات گرتے ہیں اور یہ مردہ زمین سرسبز وشاداب ہوجاتی ہے ، کیا وہ خدا جو مردہ زمین کو زندگی بخش سکتا ہے وہ تمہاری موت کو زندگی سے نہیں بدل سکتا ؟