فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَم بَعِيدٌ مَّا تُوعَدُونَ
پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دے میں نے تمھیں اس طرح خبردار کردیا ہے کہ (ہم تم) برابر ہیں اور میں نہیں جانتا آیا قریب ہے یا دور، جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو۔
(ف3) ان آیات پر سورۃ انبیاء کا اختتام ہے ، اور ان میں صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے ، کہ اسلام کی تعلیم بالضرور توحید ہے یعنی باطل اور جھوٹ کے خلاف کھلی جنگ ، حق اور سرکشی کے درمیان ابدی منافرت اور ظلم واستبداد کے مقابلہ میں قوت وغلبہ کا دائمی مطالبہ فرماتے ہیں تم توحید کے مسلک کو قبول کرلو یا انکار کر دو ، ہم بہرحال ایک خدا کی پرستش کریں گے ، اور اسی خدا کی قوتوں سے ڈریں گے ، تمہاری مخالفت اور تمہارے عناد کی قطعا کچھ پروا نہیں کریں گے ۔ ہمارے دلوں میں صرف ایک ذات کی محبت ہے اور صرف اسی ذات کا ڈر ہے ، جو رب السموت والارض ہے ۔ یہ آیات اپنے مفہوم میں مکے والوں کے لئے کھلے اعلان جنگ کی حیثیت رکھتی ہیں ، اس لئے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں مکہ میں اسلام کی حکمت عملی خوف وہراس کی حکمت عملی تھی ، انہیں ان آیات پر غور کرنا چاہئے کہ کس جرات وجسارت کے ساتھ ان لوگوں کو تباہ کردیا گیا ہے ، اور واضح کردیا گیا ہے کہ تم گو انکار کرو مگر حقیقت وہی ہے جس کا ہم اعتراف کرلیتے ہیں ، اور جسے پھیلانا ہم دین کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ حل لغات : الْمُسْتَعَانُ: وہ ذات جس سے استعانت اور مدد چاہیں ۔