سورة الأنبياء - آیت 38
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو۔
تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی
(ف ٢) مکہ والے جب یہ دیکھتے کہ انکار اسلام کے باوجود ان پر اللہ کا عذاب نہیں آتا ، تو وہ یہ سمجھتے شاید یہ ان کی نیک سختی کی وجہ سے ہے ، اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے ، کہ کیوں عذاب نہیں آجاتا ، اور ہمیں کیوں نہیں مٹا دیتا ، قرآن حکیم کہتا ہے یہ عذاب طلبی تمہاری فطری عجلت پسندی کا نتیجہ ہے ، اور صاف وصریح بےعقلی کی بات ہے ، عنقریب تم لوگ اپنی آنکھوں سے اللہ کے غضب وغصہ کو دیکھ لو گے ۔ حل لغات : عجل : جلدی یا عجلت ، اور اس کے معنے مٹی کے بھی ہیں ۔ بغتۃ : اچانک ، ناگاہ ۔ فتبھتھم : ان کے حواس باختہ کر دے گی ۔