وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر کچھ مرد، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس ذکر والوں سے پوچھ لو، اگر تم نہیں جانتے ہو۔
انبیاء علیہم السلام بشر ہوتے ہیں : (ف ١) اس آیت میں مکے والوں کے اس شبہ کا جواب ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ عام انسانوں کی طرح ہیں ، اس لئے لائق اعتناء نہیں قرآن حکیم فرماتا ہے جہاں تک انبیاء کی جماعت کا تعلق ہے سب کے سب انسان تھے کیونکہ وہ انسانوں کے لئے راہ نما ہوکر آئے تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ وہ حمیم وجدان کے لحاظ سے ذوق وخواہشات کے لحاظ سے بالکل انسان ہوں تاکہ دوسرے انسانوں کے لئے ان کی زندگی اسوہ اور نمونہ قرار پائے ۔ ورنہ (فوق البشر) ہونے کی صورت میں وہ انسانوں کے لئے کامل راہ نما نہ ہو سکتے ، کیونکہ تبع اور پیروی کے لئے ضروریات اور حالات کا مشترک ہونا لازم ہے ، جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ ہمارے راہ نما کے آگے بھی وہی زندگی کی مشکلات ہیں ، جو ہمیں پیش آتی ہیں ، اور وہ باوجود ان مشکلات کے کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں اس وقت تک اس سے تحصیل اخلاق کی خواہش پیدا نہیں ہوتی ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ کائنات میں جس قدر اانبیاء علیہم السلام آئے ہیں وہ گو اخلاق اور روحانیت کے اعتبار سے کہیں بلند وارفع تھے مگر سب کے سب انسان تھے بشری ضروریات سے مستغنی نہ تھے ، بھوک کی خواہش انہیں بھی بےقرار کردیتی تھی ، اور پیاس کی شدت کا بھی احساس ہوتا تھا ، بیماریاں بھی آتی تھیں ، اور موت بھی ، مگر باوجود ان عوارض بشری کے وہ پیغمبر تھے ، اللہ کے پیارے اور محبوب تھے یقین واطمینان کے لئے علماء سے پوچھو ، جو آسمانی کتابوں اور صحیفوں کو سمجھتے ہیں ۔ وہ تمہیں بتائیں گے کہ نبوت کے کیا معنی ہیں ، بات اصل میں یہ تھی کہ مکے والے یہ نہیں برداشت کرسکتے تھے کہ بنی ہاشم کا ایک بےنواد بیکس انسان اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہو ، اور محامد وفضائل میں ان سے بڑھ جائے ، ان کو حسد تھا کہ ہم قوم میں سردار اور مالدار ہیں ، ہمارے بہت سے اعوان وانصار ہیں ، اور ہم دولت وحشمت کے مالک ہیں ، ہم تو باوجود ان خوبیوں کے اللہ کی نظروں میں جچے نہیں اور یہ ایک یتیم بےنوا اتنے بلند منصب کو پائے ، اور لوگ ہمیں چھوڑ کر اس کی عزت وتکریم کریں ، کیا دولت وعزت ہم سے منہ پھیر لے گی ؟ اور اس کے قدم چومے گی ، کیا بنی ہاشم کا اقتدار اس کی وجہ سے پھر مکہ کے تمام قبائل سے بڑھ جائے گا ، یہ خیالات تھے جو قبول حق کے لئے مانع تھے ، اس لئے انہوں نے بغیر کسی معقول وجہ کے کہ کہنا شروع کردیا ، کہ انبیاء علیہم السلام کو انسانی ضروریات کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے ، ان کو بشری شکل وصورت میں نہ ہونا چاہئے ، غرض یہ تھی کہ اس طریق سے ہم بآسانی اسلام کے مشن کو ناکام بنا سکیں گے مگر اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ایک انسان کے سر پر یہ تاج فضیلت رکھا جائے ، اور اس کو ان کے سامنے کامیاب بنایا جائے ، چنانچہ اسی بشر نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ، کہ ان جیسا ایک بھی کسی دیوتا سے نہ ہوسکا ، جن کو دنیا خدا کے سوا پوجتی ہے ۔ حل لغات : رجالا : رجال جمع رجل ، بمعنی مردان ۔ اھل الذکر ، : علماء توریت ومصحف انبیاء ۔ کو جاننے والے ،