سورة طه - آیت 122

ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر اس کے رب نے اسے چن لیا، پس اس پر توجہ فرمائی اور ہدایت دی۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہمارا اصلی مقام جنت ہے : (ف ١) اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا ، اور تمام فرشتوں کو اس کے سامنے جھکایا ، تاکہ اس میں عزت نفس کے جذبات بیدار ہوں ، اور وہ صحیح معنوں میں اللہ کا نائب کہلا سکے ، پھر جنت میں جگہ دی تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اس کا اصلی مقام جنت ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور خدا کا قرب لکھا ہے ، مگر آدم شیطان کی ملبسانہ باتوں میں آگیا ، اور اس سے وہ لغزش ظہور میں آئی جو انجام کار جنت سے اخراج پر منتج ہوئی ، شیطان نے کہا (آدم (علیہ السلام) کی بشری نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) کہ جانتے ہو تمہیں شجر مخصوص سے کیوں روکا گیا ہے ؟ اس لئے کہ کہیں تم اس درخت کے پھل کو کھا کر خلود ودوام کی نعمتیں نہ حاصل کرلو ، اور تمہیں ہمیشہ کی بادشاہت نہ مل جائے آدم (علیہ السلام) کے دل میں ایک آرزو پیدا ہوئی ، اور تجسس اور معلومات کی غرض سے کہ دیکھیں اس کے بعد کیا ہوتا ہے ، شجر ممنوعہ کے قریب گیا اور پھل توڑ کر کھالیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ مادی اور فانی احساسات بیدار ہوگئے ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بدن پر لباس نہیں ہے اور انہیں لباس کی ضرورت ہے چنانچہ جنت کے پتوں سے تن ڈھانکنے لگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور عصیان کا نتیجہ تھا ، مگر جب ان کو اپنی لغزش کا احساس ہوا ، اور انہوں نے معافی مانگ لی ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پھر برگزیدہ کردیا ، مگر جنت سے ایک خاص وقت تک محروم رکھا ، فرمایا اب تمہاری یہاں گزر نہیں ہو سکتی ، کیونکہ تم میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ، شیطان اور اس کی ذریت ہر وقت تمہاری تاک میں ہے ، تم دنیا میں جاؤ ، اور شیطان کا وہاں جا کر مقابلہ کرو ، میری ہدایات وقتا فوقتا نازل ہوتی رہیں گی ، تمہاری اولاد نے اگر اس سے تمسک کیا تو وہ پھر اس مقام کو حاصل کرلے گی ، اور اگر انہوں نے نافرمانی کا ارتکاب کیا تو پھر قیامت میں خیر نہیں ، بہت بری زندگی بسر کریں گے ، وہاں مکافات عمل کے ماتحت جو سزائیں ملیں گی ، وہ بالکل ہمارے اعمال کے موافق ہوں گی ، حتے کہ وہ لوگ جو یہاں عمدا آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور حقائق کو نہیں دیکھتے ، وہ جب اٹھیں گے تو ان سے دیکھنے کی استعداد چھین لی جائے گی ، وہ کہیں گے ، پروردگار دنیا میں تو ہماری آنکھیں تھیں ، یہاں کیوں ہم اندھے ہیں ، اور نظر وبصر سے محروم ہیں ، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، اس لئے کہ جب میری آیتیں اور نشانیاں تمہارے سامنے آئیں ، تو تم نے آنکھیں بند کرلیں ، اور کبر وغرور سے میرے پیغام کو ٹھکرایا ، نتیجہ یہ ہوا کہ آج جنت کی نعمتوں نے تم سے منہ پھیر لیا ہے ، اور تم اندھے ہوگئے ہو ، کہ اب خدائے رحیم کی نعمتوں کو نہ دیکھ سکو ، ارشاد ہوتا ہے کہ تم دنیا کی مصیبتوں سے ، ڈر کر سچائی کو نہیں مانتے اور نہیں جانتے کہ آخرت کا عذاب بہت زیادہ سخت اور ناقابل برداشت ہے ، اور پھر اس کی تلخیاں ایسی نہیں کہ ختم ہوجائیں ، وہ باقی رہنے والی ہیں ۔ حل لغات : معیشۃ ضنکا : مکدر زندگی ، تنگ زندگی ۔