سورة طه - آیت 104

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ہم زیادہ جاننے والے ہیں جو کچھ وہ کہہ رہے ہوں گے، جب ان کا سب سے اچھے طریقے والا کہہ رہا ہوگا کہ تم ایک دن کے سوا نہیں ٹھہرے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) جو لوگ یہاں تن آسانیوں میں الجھل کر رہ جاتے ہیں اور مادیت میں اس درجہ پھنس جاتے ہیں ، کہ قرآن کی آواز پر کان نہیں دھرتے ایک وقت آئے گا ، جب وہ پچھتائیں گے ، ان کی پشت عذاب کے بوجھ سے جھک جائے گی اور یہاں کے تمام تکلفات کی اس وقت حقیقت کھلے گی ، (آیت) ” یوم ینفخ “۔ سے مراد یہاں دوسری دفعہ صور پھونکنا ہے ، اس وقت تمام لوگ اللہ کی حکمت وقدرت سے جی اٹھیں گے ، قرآن وحدیث کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو دفعہ یہ صور پھونکا جائے گا ، ایک اس وقت جب اللہ کو یہ منظور ہوگا ، کہ دنیا کا خاتمہ کر دیاجائے اور ایک اس وقت جب دوبارہ دنیا والے زندہ کئے جائیں گے ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نفخ صور میں یہ تاثیر رکھی ہو ، کہ وہ ایک وقت تو کائنات کی موت اور دوسرے وقت مخلوق کی زندگی کا موجب ہو سکتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ محض ایک اعلان اور تنبیہ ہو اور براہ راست زندگی اور موت میں اثر انداز نہ ہو ، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں ، یہ تخلیق وامانت کے مختلف طریقے اللہ کے شؤن مختلفہ میں سے محدود لے چند ہیں ، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ وہاں مطلقا ارادہ کی ضرورت ہے ، وسائل وذرائع بالکل ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جب وہ کسی چیز کو پیدا یا ناپید کرنا چاہتا ہے تو اس کے ارادہ میں جنبش ہوتی ہے اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے ، یا یک قلم ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد احوال قیامت کا بیان ہے اور یہ بتایا ہے کہ انسانی علم کس درجہ ناقص ہے جب سب لوگ دوبارہ زندہ ہوں گے تو یہ لوگ مختلف قیاس آرائیاں کریں گے ، کوئی کہے گا ہم دس روز تک عالم برزخ میں رہے ، اور کوئی کہے گا کہ صرف ایک دن رہے ہیں ۔ اور یہ کہنے والا اپنے زعم میں سب سے زیادہ صائب الرائے اور عقلمند ہوگا ۔ حل لغات : حملا : بوجھ یا بار ۔ زرقا : زرق کی جمع ہے (نیلی آنکھوں والے) عربوں میں نیلی آنکھوں والا منحوس شمار ہوتا تھا ، اور اس کے معنے اندھے کے بھی ہیں ۔ امثلھم : ان میں سے بہترین آدمی (عاقل وہوشمند) ۔