قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي
اس نے کہا اے میری ماں کے بیٹے! نہ میری ڈاڑھی پکڑ اور نہ میرا سر، میں تو اس سے ڈرا کہ تو کہے گا تو نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غیرت دینی : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) قوم کی اس بت پرستی کی حرکت سے سخت طیش میں تھے ، فرط غضب میں انہوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے بھی سختی کے ساتھ باز پرس کی اور کہا کہ تم نے یہ سب کچھ کیوں اپنے سامنے ہونے دیا یہاں چند باتیں قابل غور ہیں ۔ ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طبیعت میں فطرتا سختی تھی ، اور ایسا ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ مقابلہ فرعون سے تھا ، اور اس کی قوم کے جبارہ سے ۔ ٢۔ یہ غضب ذاتی طور پر نہ تھا ، بلکہ دین کے مقابلے میں محض اللہ کی محبت کے جوش سے تھا ، ٣۔ واقعات اسی نوع کے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسے پیغمبر کا غصہ سے بےتاب ہوجانا بالکل اضطراری تھا ، کیونکہ انہوں نے بڑی مشکلوں سے بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نکال کر یہاں رکھا تھا تاکہ یہ گمراہی کے اثرات سے محفوظ رہیں ، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں بھی یہ لوگ محفوظ نہیں رہے ، اور ساری محنت اکارت گئی تو غصہ سے بھڑ اٹھے ۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) جہاں پیغمبر تھے ، وہاں انسان بھی تھے ، اور بشری تقاضے اور داعی ان میں موجود تھے ۔ ان حقائق وحالات میں اگر انہوں نے ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی پکڑ لی اور بظاہر اولی اانداز میں تخاطب فرمایا تو بالکل طبعی اور قدرتی امر تھا ۔ اس جواب طلبی میں ہارون (علیہ السلام) نے جو ارشاد فرمایا ، وہ سننے کے قابل ہے ، کہتے ہیں میں نے زیادہ زور کے ساتھ اس لئے ان لوگوں کو گوسالہ پرستی سے نہیں روکا ، کہ ان میں تفریق نہ پیدا ہوجائے گویا ہارون (علیہ السلام) کی نظر میں اختلاف وتشتت کا مرض شرک کے مرض سے بھی زیادہ خطرناک اور ہولناک ہے ، انہوں نے یہ تو گوارا کرلیا ، کہ ایک جماعت کی جماعت گمراہی کے عقیدے پر جمی رہے ، مگر یہ گوارا نہیں کیا کہ قوم میں اختلاف پیدا ہو اور قوم دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے ، کیونکہ ان کو یقین تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آجانے کے بعد شرک توحید سے بدل سکتا ہے ، اور قوم پھر ایک خدا کی پرستار بن سکتی ہے مگر شاید یہ مشکل ہو کہ دو گروہوں میں بٹی ہوئی جماعت پھر سلک وحدت میں منسلک ہو سکے ، کیا ہمارے افتراق انگیز علماء اس حقیقت پر غور فرمائیں گے : حل لغات : لن نبرح : مابرح اور ماذال ایک ہی قبیل سے ہیں ۔ فما خطبک : خطب بمعنی حالت یہاں مقصود یہ ہے کہ تمہارا عذر کیا ہے ۔