سورة طه - آیت 85

قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

فرمایا پھر بے شک ہم نے تو تیری قوم کو تیرے بعد آزمائش میں ڈال دیا ہے اور انھیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سامری کا بچھڑا : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر پہنچے تو ان کے پیچھے بدبخت لوگوں کو موقع ملا کہ قوم میں گمراہی کے جراثیم پھیلائیں ، چنانچہ سامری نامی ایک شخص نے ان کو مشورہ دیا کہ جو زیورات اور چاندی سونے کے ظروف تمہارے پاس ہیں ، وہ آگ میں ڈال دو ، انہوں نے اس کی بات مان لی ، اس نے کچھ اس طرح چاندی اور سونے کو پگھلا کر ایک قابل تیار کیا جو بچھڑے کی شکل کا تھا ، اور اس میں ہوا کے آنے جانے کی وجہ سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی بنی اسرائیل جو دماغی لحاظ سے بہت پست اور درماندہ تھے اور غالبا مصر میں گائے کی پرستش کے عادی بھی تھے سامری کے بھرے میں آگئے ، سامری نے کہا ، یہ تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ہے ، تمہیں اس کی پرستش کرنا چاہئے وہ پرانے جذبہ گاؤ پرستی اور اس کرشمہ کی وجہ سے کہ سونے چاندی کا مرکب بول رہا ہے گمراہ ہوگئے ، اور گائے کے بچھڑے کو حقیقی خدا سمجھنے لگے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تو وہ غضب وغصہ سے بھرے ہوئے واپس لوٹے ، اور قوم سے سختی کے ساتھ احتساب کیا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی کہ بےجان قالب کی پوجا شروع کردی ، کیا اللہ کے وعدے کے ایفاء میں کچھ دیر ہوگئی تھی ، یا تمہیں عذاب الہی کی خواہش ہے انہوں نے ، اس فعل کی ساری ذمہ داری سامری پر عائد ہوتی ہے ، ہم نے اس کے کہنے کے موافق کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان احمقوں کو یہ بھی نہیں سوجھتا کہ خدا ہونے کے لئے صرف عجیب ونادر ہونا کافی نہیں ، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کی ضروریات کو جانے ان کی پکار سنے اور قبول فرمائے انکو منافع وبرکات سے بہرہ مند کرے ، اور ان کے دشمنوں کو مغلوب رکھے ، یہ بچھڑا نہ انکی باتوں کو جواب دیتا ہے اور نہ کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے ، پھر کیونکر اس کو خدائی مسند پر فائز قرار دیا جائے ۔ بات یہ ہے کہ خدا وہ ہے جو ہماری تمام ضروریات سے آگاہ ہے ، جو دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ، اور ہر آن ہمارا خیال رکھتا ہے ، وہ ایسی ذات بابرکت ہے جس کے نام سے دلوں میں سرور پیدا ہوتا ہے ، اور جو ہماری لئے ہر طرح موجب اطمینان اور راحت وسکون قلب ہے ، مگر مشرک ہیں ، کہ ان کی نظر ان معمولی حقائق تک بھی نہیں پہنچتی ، وہ ہر عجیب ونادر چیز کے سامنے جھک جاتے ہیں ، اور یہ نہیں سمجھتے کہ خدائی کا تخیل کس درجہ بلند وارفع ہے ۔ حل لغات : فتنا : آزمائش میں ڈال دیا ، یعنی آزمائش کا ایک موقع پیدا کردیا ، اسی لئے گمراہی کا انتساب سامری کی جانب کیا ہے ۔ واضلھم السامری : یعنی سامری نے ان کو بہکا دیا ہے ۔ اوزارا : جمع وزر ، بمعنی بوجھ ۔ بنی اسرائیل چاندی سونے کے زیورات بجائے خود اپنے ساتھ لے آئے تھے اب چونکہ وہ ان تمام باتوں کو چھوڑ چکے تھے اور جنگل میں آباد تھے اس لئے ان زیورات کو غیر ضروری بوجھ قرار دیا ، اور آسانی سے اضاعت پر راضی ہوگئے ۔