فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔
شیریں گفتار ہونا مبلغ کیلئے ضروری ہے : (ف ١) فرعون کے پاس بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ وہ آج کل کے علماء کو آب زر سے لکھ لینا چاہئے ارشاد ہوتا ہے ، کہ دیکھنا میری یاد سے غافل نہ ہوجانا ، اور ہر وقت عبودیت اور نیاز مندی کے تعلقات کو قائم رکھنا کیونکہ یہی چیز ہے جس سے دلوں میں پاکیزگی موجود رہتی ہے اور انسان دنیا کی تمام لذتوں کو آخرت کے مقابلہ میں حقیر سمجھتا ہے ، ذکر وشغل کی برکات سے روح میں نزہت وتواناہی پیدا ہوتی ہے اور دل ودماغ مجلے اور روشن ہوجاتے ہیں یہی وہ اکسیر ہے جس کے باعث چہروں پر نور اور قلب میں سرور موجزن ہوتا ہے ، اور یہی وہ کبریت احمر ہے جس سے بہرہ ور ہونے والا انسان حقیقتا نہایت خوش قسمت انسان ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون چونکہ ایک بہت بڑی مادی قوت سے نبرد آزما ہونے کے لئے جا رہے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ ان میں اسی تناسب سے روحانیت ہو ، اور فرعون کے عساکر کے مقابلہ میں ان کے پاس بھی اللہ کی زبر دست اعانت موجود ہو ، علماء اور راہنمایان دین کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ وہ بھی اللہ کے اس ارشاد کو نہ بھولیں ، اور مقام اصلاح پر جلوہ فرما ہونے سے پہلے صالح ، نیک اور خدا پرست انسان بننے کی کوشش کریں ، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ جب کبر وغرور کے اس مجسمہ کے پاس جاؤ جس کا نام فرعون ہے ، تو نہایت دفق وملاطفت سے پیش آنا ، حلاوت اور شیرینی سے باتیں کرتا ، تاکہ اس کے دل میں اثر پیدا ہو سکے اور اس کی قساوت قلبی پر خشیت الہی غالب ہوجائے ، یہاں ذرا ملاحظہ کیجئے ، فرعون کے مقابلہ میں جو جابر ہے ، ظالم ہے ، اور بدرجہ اتم سرکش ہے ، اپنے پیغمبر کو اخوت اور ملاطفت کی تلقین کی جارہی ہے ، سوچئے اور بتائیے ہمارے علماء اور قدسیان طریقت کا رویہ عام مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا ایسا ہی ہے ؟ وہ مسلمان جو کلمہ گو ہیں ، خدا کو ایک مانتے ہیں ، اور فروتنی وانکسار سے رہنا اپنے لئے فخر جانتے ہیں ، ان کی ادنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر ہمارے علماء اور مرشدین کس خشونت اور درشتی سے پیش آتے ہیں ؟