أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي
یہ کہ تو اسے صندوق میں ڈال، پھر اسے دریا میں ڈال دے، پھر دریا اسے کنارے پر ڈال دے، اسے ایک میرا دشمن اور اس کا دشمن اٹھالے گا اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے ایک محبت ڈال دی اور تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔
(ف ١) ام موسیٰ کی جانب وحی کے معنی یہ ہیں کہ بذریعہ الہام ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں صندوق میں رکھ کر بہا دو ، وہ امن وسل امتی کے ساتھ حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل کرے گا ، ام موسیٰ کا ایمان ملاحظہ ہو کہ لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک رہی ہیں کتنا زبردست عقیدہ ہے کس قدر محکم یقین ہے کہ نتائج سے بےپروا ہو کر اپنے بیٹے کو دریا کی موجوں کے سپرد کر رہی ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ کی عنایت دیکھئے کہ اس نے ام موسیٰ (علیہ السلام) کے تقویت ایمان کے ثمرہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شاہی محلات میں پہنچا دیا ، اور تربیت کے لئے یہ سامان کیا ، کہ ماں ہی کو دودھ پلانے کی خدمت سونپی گئی ، جو لوگ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ ہی طرح حیرت انگیز طور پر ان کی مد فرماتا ہے ، (آیت) ” ثم جئت علی قدر یموسی “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ ابتدائی تمام منزلیں طے کر چکنے کے بعد اب تم اس انداز خاص تک پہنچ گئے ہو ، جہاں ضرور ہے کہ تمہیں اپنی خدمات کے لئے مختص کرلیا جائے ۔