الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ
وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا۔
صفات ، حالات وشیؤن اور تائیدات : (ف ٢) قرآن حکیم میں جو الفاظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوئے ہیں ، ان کی تین قسمیں ہیں ، ایک وہ ہیں جو بطور صفات کے استعمال ہوتے ہیں جیسے علیم ، حکیم ، رب اور غفور ورحیم ، وغیرہا ، ایک وہ ہیں جو شؤن وحالات کی تشریح کے لئے آتے ہیں بطور صفت کے ان کا استعمال نہیں ہوتا ، جیسے لفظ استواء کہ یہ ایک خاص حالت اور شان پر دلالت کرتا ہے اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو بیان کرنا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں کہیں بھی بطور مستوی کے یہ لفظ نہیں آیا ہے ، اور احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات میں کہیں مستوی علی العرش کا لفظ موجود نہیں کریگا ایک حقیقت شرعی ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے ، مگر اس میں ایک حالت ہے جمال سرمدی کی اور ایک کیفیت سے توجہات ربوبیت کی ۔ تیسری قسم یہ ہوتی ہے کہ الفاظ متعمات کے طور پر استعمال ہوں اور بجائے خود ظاہری معنوں میں مقصود نہ ہوں ، جیسے ید ، وجہ ، یا عین کا لفظ کہ جب ان کا استعمال ہوتا ہے ، غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ معنے جو بیان کئے گئے ہیں ، یہ الفاظ ان میں تائید اور تتمیمہ پیدا کردیں ، مثلا ” بیدہ الملک “ اس سے غرض اس مفہوم کی تائید ہے کہ سب قسم کی بادشاہتیں ، اللہ کے قبضہ و قدرت میں ہیں ، یہ نہیں کہ اللہ کے لئے لفظ ید ثابت ہے ، اسی طرح وجہ کا لفظ اینما تولوا فثم وجہ اللہ میں بجائے خود مقصود نیں ، غرض اللہ کی وسعت علمی کو بیان کرنا ہے ، لفظ عین سے نگرانی و حفاظت کا مفہوم ظاہر کرنا مقصود ہے جیسے ارشاد ہے واصنع الفلک باعیننا ۔