سورة البقرة - آیت 226

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ان لوگوں کے لیے جو اپنی عورتوں سے قسم کھا لیتے ہیں، چار مہینے انتظار کرنا ہے، پھر اگر وہ رجوع کرلیں تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ایلاء کا حکم : (ف ١) ایلاء کے مفہوم میں اختلاف ہے لغۃ قسم کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، شرعا متفق علیہ مفہوم جس پر جمہور کا اتفاق ہے ، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی عورت کی مقاربت سے چار مہینے سے زائد مدت کے لئے پرہیز کا عہد کرلے اور ہم کھالے کہ وہ اس عرصے میں عورت کے نزدیک نہیں جائے گا اور چار مہینے یا اس سے کم مدت کے لئے قسم کھائے تو اس کا حکم یمین بعض کا حکم ہوگا ایلاء کا نہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہائے عظام کا یہی مذہب ہے ۔ جب یہ صورت حالات پیدا ہوجائے تو پھر یا تو چار مہینے صبر کرکے رجوع کرلے تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہ ہوگا اور یا اگر مدت سے پہلے رجوع کرلے تو کفارہ یمین دے اور اگر کوئی طور پر انقطاع کا قصد ہو تو طلاق دے دے ، رجوع کے متعلق فرمایا (آیت) ” واللہ غفور حلیم “۔ یعنی نباہ کرنا بہرحال بہتر ہے قسم کی پرواہ نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے اور طلاق کے متعلق فرمایا ۔ (آیت) ” فان اللہ سمیع علیم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ مانتے اور سنتے ہیں کہ تم دونوں میں سے کون ظالم اور کون مظلوم ہے لہذا طلاق کے معاملے میں احتیاط ضروری ہے ، ذرا سی غفلت میں دونوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔