فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا ۖ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا
پس کھا اور پی اور ٹھنڈی آنکھ سے رہ، پھر اگر تو آدمیوں میں سے کسی کو دیکھے تو کہہ میں نے تو رحمان کے لیے روزے کی نذرمانی ہے، سو آج میں ہرگز کسی انسان سے بات نہ کروں گی۔
(ف ١) حضرت مریم (علیہ السلام) درد زہ کی وجہ سے بےقرار ہوگئیں ، اور جنگل کی طرف نکل کھڑی ہوئیں ، وہیں حضرت مسیح (علیہ السلام) تولد ہوئے ، اس طرح سے بچہ کی پیدائش بجائے خود حضرت مریم (علیہ السلام) کے لئے خوش آیندہ نہ تھی ، اس پر مزید یہ کھٹکا کہ لوگ کیا کہیں گے ، اور پھر بےسروسامانی کا یہ عالم کہ اپنے پاس کوئی موجود نہیں جو دلداری کرسکے ، اس لئے انسانی فطرت کی کمزوری سے انہوں نے اضطرار یہ کہا کہ (آیت) ” یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا “۔ تو بالکل بجا فرمایا حالات کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے منہ سے اس قسم کے کلمات نکلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ، حضرت مریم (علیہ السلام) کو فرشتہ نے پکار کر کہا کہ غم نہ کرو ، اس بےسروسامانی میں بھی دو چیزیں موجود ہیں تروتازہ کھجوریں اور چشمہ کا صاف اور شریں پانی ، اور سب سے زیادہ غلط کرنے والا اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا لخت جگر ، ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا چپ رہنا اور اس کو ” صوم “ کے لفظ سے تعبیر کرنا ، اس کے معنے یہ ہیں کہ اس زمانے میں روزہ کی یہ شکل بھی موجود تھی غالبا حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بھی اسی روزہ کی تلقین کی کی گئی تھی ۔ حل لغات : امراسوہ : بڑا آدمی ، سوء کا لفظ گوعام برائی کے لئے موضوع ہے ، مگر اس کا انتساب جب انسان کی طرف ہو ، تو اس سے مراد اخلاق کی برائی ہوتی ہے ۔ بغیا : بدکار ۔ برا : نیک صالح ، حقوق آشنا ۔