فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَىٰ جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَٰذَا وَكُنتُ نَسْيًا مَّنسِيًّا
پھر درد زہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگی اے کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔
بغیر باپ تولید کے امکانات : (ف ١) اللہ تعالیٰ کو جب یہ منظور ہوا کہ مسیح (علیہ السلام) کو بطور خرق عادت کے پیدا کرے تو پہلے حضرت مریم (علیہ السلام) کو اس کی اطلاع دی اس کو یقین دلایا ، کہ تو لوگوں کے اعتراضات کا ہدف بنے گی ، اور پھر قدرت کا اظہار فرمایا ، فحملتہ : سے مراد طبعی مدت حمل سے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے ، یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) میں بیک وقت اللہ تعالیٰ نے افعل وانفعال کی قوتیں پہناں رکھی ہوں ، اس قسم کی مثالیں آج کل تو بکثرت مل رہی ہیں کہ بہت سے نوجوان مرد عورت بن گئے اور بتہ ہی شادی شدہ عورتیں مردوں کی صورت میں تبدیل ہوگئیں ، یہ نظریہ استحالہ شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض عورتوں میں قدرت کی جانب سے تذکیر کا مادہ موجود ہوتا ہے ۔ بعض اوقات جب عورت حد سے زیادہ ذہین ہو ، اور اس کی قوت کو بدرجہ غایت نازل ہو ، تو اس وقت بھی محض یقین اور خیالی قوت سے حمل ٹھہر سکتا ہے طبیعت خود بخود اس نوع کے عناصر پیدا کرلیتی ہے جو اس تبدیلی کے لئے ضروری ہیں ۔ قوت خیال کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک حساس عورت کو یقین ہوجائے اور نفخہ روح کا عمل بھی بروئے کار آجائے تو پھر بغیر مرد کے حمل ٹھہر جانا مشکل نہیں ، بہرحال اس باب میں اصلی چیز قرآن کی تصریحات ہیں جب قرآن نے اس تبدیلی کا ذکر تفصیل ووضاحت سے فرمایا ہے تو پھر اب مسلمان کے لئے شک اور تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔ حل لغات : قصیا : دور کی جگہ اقصے ال مدینہ ۔ نسیا : بھول جانے کے لائق جو چیز ہو ۔ سریا : چشمہ یا نہر ، بعض سلف سے سریا کے معنی شریف اور کریم النفس شخص کے بھی آئے ہیں مگر یہ کچھ صحیح نہیں معلوم ہوتے کیونکہ تحتک کا لفظ بچے کے لئے کوئی عمدہ تعبیر نہیں ہوسکتی ، نیز اس کے بعد بطور لف و نشر مرتب کے کلی واشربی کا لفظ آیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ سریا کے معنی چشمہ یا نہر کے ہوں ۔