سورة الكهف - آیت 79
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
رہی کشتی تو وہ چند مسکینوں کی تھی، جو سمندر میں کام کرتے تھے، تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کرلے لیتا تھا۔
تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی
(ف ١) حضرت خضر (علیہ السلام) نے بتایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان غریب ملاحوں کے لئے ہر حال وسیلہ روز گار بنی رہے ، ایسا نہ ہو کہ اسے کار آمد سمجھ کرلو گرشاہی اپنے لئے مخصوص کرلے ، ان مسکینوں کی گذر محض کشتی پر تھی اس وقت کا بادشاہ ظالم اور غاصب تھا ، رعایا کی ہر اچھی چیز چھنوا لیتا ، اور اپنے لئے مخصوص کرلیتا ۔