فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا
پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ جب وہ ایک بستی والوں کے پاس آئے، انھوں نے اس کے رہنے والوں سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے انکار کردیا کہ ان کی مہمان نوازی کریں، پھر انھوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو چاہتی تھی کہ گر جائے تو اس نے اسے سیدھا کردیا۔ کہا اگر تو چاہتا تو ضرور اس پر کچھ اجرت لے لیتا۔
حضرت خضر (علیہ السلام) کا حسن سلوک اور گاؤں والوں کی بدبختی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) طویل مسافت طے کرنے کے بعد ایک گاؤں میں پہنچے بھوک سے بےقرار ہو رہے تھے ، گاؤں والوں سے کہا کہ ہم مسافر ہیں ، ہمیں اپنا مہمان بناؤ ، انہوں نے ازراہ شقاوت انکار کردیا اور شرف مہمان نوازی سے محروم رہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) ان کی اس حرکت سے قطعا ملول نہ ہوئے ، اتفاق سے ایک دیوار پر نظر پڑی ، تو دیکھا کہ کہنگی اور بوسیدگی کے باعث گر رہی ہے آپ اٹھے اور اس کی تعمیر میں مصروف ہوگئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے روکا اور کہا جو گاؤں اخلاق کی مبادیات سے بھی ناواقف ہے اور اس درجہ بداخلاق ہے کہ مسافر کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتا وہ ہرگز اس ہمدردی اور حسن سلوک کا مستحق نہیں ، آپ کو اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو کم از کم اپنی محنت کا معاوضہ تو مانگ لیجئے ، کیونکہ مزدوری مقرر کرلینے میں شفا کو کوئی حرج نہیں ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا ، بس اب نصیحت رہنے دیجئے ، آپ کے ساتھ میری نہیں نبھ سکتی ، لہذا رفاقت ہوچکی ، اب میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ میں نے افعال کیوں کئے اس کے بعد مجھ میں اور آپ میں جدائی ہے ، اس زمانے میں نہ ہوٹل تھے ، نہ آمد ورفت میں آسانیاں تھیں ، کہ سفر کرنے والے کثرت سے ہوں ، اور شہروں میں مسافروں کا ہجوم رہے ، فائدہ یہ تھا کہ شدید حادثات کے سخت اگر کوئی شخص سفر اختیار کرتا تو راستے میں جو گاؤں پڑے ، وہاں کے لوگ رہنما اس کی مہمان نوازی کے لئے تیار رہتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے انہیں حالات کے ماتحت اور اسی حق کی بنا پر ضیافت کا مطالبہ کیا ، ورنہ اس قسم کی استدعاء انبیاء کی بلندی کے یکسر منافی ہے ؟ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء بھی از دیار علم کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور علم کے لئے کوئی آخری حد مقرر نہیں کی جا سکتی ، علم ایک سمندر ہے ناپیدا کنار ، بجز اللہ تعالیٰ کے ہر شخص ہر حالت میں محدود علم کا مالک ہے ، اور اسے ضرورت ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے ۔