يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں؟ کہہ دے تم خیر میں سے جو بھی خرچ کرو سو وہ ماں باپ اور زیادہ قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے اور تم نیکی میں سے جو کچھ بھی کرو گے تو بے شک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔
(ف ٢) یہ ضروری نہیں کہ (آیت) ” یسئلونک “ سے پہلے کوئی سوال بھی ہو ۔ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم ضروریات انسانی کے موافق نازل ہوا ۔ اس لئے وہ چیزیں جن کی ہم کو ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ اسے (آیت) ” یسئلونک “ کے رنگ میں ذکر کردیتا ہے ، یہ انداز بیان ہے اس لئے اچھے ہر موقع پر شان نزول کی تلاش چنداں مفید نہیں ۔ یہ بھی قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ سوالات جو پیدا ہوتے ہیں ان کا رخ زیادہ اہم اور زیادہ سائستہ اعتناباتوں کی طرف پھیر دیتا ہے ۔ ان آیات میں سوال بظاہر یہ ہے کہ کیا خرچ کریں ، جواب یہ ہے کہ ان ان مقامات پر خرچ کرو ، مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ کچھ بھی خرچ کرو ، بہرحال اس کا مصرف صحیح ہونا چاہئے بعض اوقات گراں قدر صدقات بھی صحیح مصرف نہ ہونے کی وجہ سے بیکار ہوجاتے ہیں ، مصرف یہ ہیں ، سب سے پہلے والدین ‘ اس کے بعد اقربا ‘ اس کے بعد یتمی اور مساکین اور اس کے بعد مسافر ، مگر آج ان آیات پر کن کا عمل ہے ہمارے یتیم خانے کہاں ہیں ، مقروض اور مسکین مسلمانوں کے لئے کہاں ٹھکانا ہے ؟ مسافر خانے کس قوم نے تعمیر کئے ہیں ؟ ان سوالات کے جواب مسلمان قرآن حکیم کی روشنی میں سوچیں ۔ حل لغات : الباساء : تکلیف ۔ الضرآء : نقصان ، خیر : بھلائی ۔ مال ۔ ابن السبیل : مسافر ۔