وَعُرِضُوا عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّن نَّجْعَلَ لَكُم مَّوْعِدًا
اور وہ تیرے رب کے سامنے صفیں باندھے ہوئے پیش کیے جائیں گے، بلاشبہ یقیناً تم ہمارے پاس اسی طرح آئے ہو جیسے ہم نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا، بلکہ تم نے گمان کیا تھا کہ ہم تمھارے لیے کبھی وعدے کا کوئی وقت مقرر نہیں کریں گے۔
(ف ١) قرآن حکیم کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ واقعہ کی تصویر کھینچ دیتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم واقعہ کی تمام جزئیات کو اپنی آنکھوں دیکھ رہے ہیں قیامت اور حشر ونشر کے متعلق جتنی باتیں ذکر فرمائی ہیں ، وہ سب اس اسلوب بیان کی آئینہ دار ہیں ۔ اور یہ طرز بیان اس درجہ موثر کہ قیامت کے احوال کو پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پر واقعی قیامت گزری ہے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور ان تمام کیفیات کو دیکھ رہے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ تم ہمارے پاس پہلی حالت میں لائے جاؤ گے ، بالکل فطرت میں تمام تکلفات دنیا میں دھرے رہ جائیں گے ، تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم کبھی تم کو اپنے ہاں نہ بلائیں گے ، اور تمہارے لئے محاسبہ اعمال کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ، مگر آج تمہارا یہ زعم غلط ثابت ہو رہا ہے ، آج تم ہمارے حضور میں کھڑے ہو اپنے جرائم کی فہرست تمہارے ہاتھ میں ہے ، اور دیکھ رہے ہو کہ لغزش خیال سے لے کر بڑے بڑے گناہوں تک سب باتیں اس میں مندرج ہیں ، کہو اب کیا جواب ہے خوب سوچ لو ، یہ وقت آنے والا ہے اور وہ اتنا سخت وقت ہوگا اور کوئی شخص تمہیں ان مشکلات سے مخلصی نہیں دلا سکے گا ، اس سے قبل کہ موت کے فرشتے آئیں تمہارا فرض ہے کہ اپنی آئندہ زندگی پر غور کرو اور زاد آخرت مہیا کرو ۔ حل لغات : موعدا : میقات ، اسم ظرف ہے ۔ وعد : سے بمعنی وعدہ گاہ ، و زمان وعدہ