هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اللہ بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام تمام کردیا جائے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔
خدا کی آمد : (ف ١) وہ لوگ جو منکر ہیں ان کو ہرچند دلائل وبراہین سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن وہ بغض وعناد پر ہی قانع رہے یعنی جب انہیں عاقبت کی سختی سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ، ہم نہیں ماننے کے ، ہم پر کیوں عذاب نہیں آجاتا ، آخر اس میں تامل کیا ہے ؟ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کے اس مقولے کو نقل فرمایا کہ (آیت) ” فاسقط علینا کسفا “۔ یعنی ہم پر آسمان ٹوٹے پڑے ، ہم بالکل اس کے لئے آمادہ ہیں ۔ اس آیت میں بھی ان کی اس ذہنیت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کی سرکشیاں حد سے گزر گئی ہیں اور عذاب الہی کے سوا یہ مجاز ہے مقصد عذاب الہی کی آمد ہے ، قرآن حکیم نے اس طرح کے انداز بیان کو دوسری جگہوں میں استعمال کیا ہے ۔ جیسے (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد “۔ یا (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا “۔ ورنہ وہ ہر طرح کی جسمانیت سے پاک اور برتر ہے ۔