قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
کہہ دے اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ضرور روک لیتے اور انسان ہمیشہ سے بہت بخیل ہے۔
(ف ٢) اس آیت میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ دراصل اس قسم کے شبہات تمہارے دل میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ تمہیں ان مسائل کے سمجھنے میں الجھن ہوتی ہے یا یہ مسائل ناقابل فہم ہیں ، بلکہ یہ انکار وتمرد محض اس لئے ہے کہ تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو فراخدلی کے ساتھ برداشت نہیں کرسکے ، تمہارے دلوں میں بخل ہے اور تم نہیں چاہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں ان معارف کو ہرکس و ناکس کے سامنے پیش کریں اس میں تم اپنی توہین سمجھتے ہو نبوت کے خزانے اگر تمہیں ہلتے تو تم اس دریا دلی سے ہرگز خرچ کرتے تمہیں رنج ہے ، تو یہ ہے کہ ہدایت عام ہوئی جاتی ہے ، اور تم بڑے بڑے لوگوں کے لئے کوئی وجہ تخصیص نہی رہی ۔ بات یہ ہے کہ انسان فطرتا بخل پسند ہے ، کشادہ دلی کے ساتھ دوسروں کی خوبیاں تسلیم نہیں کرتا ، اور ایک شخص کے فضائل ومحاسن کا محض اس لئے انکار کردیتا ہے ، کہ وہ خود کیوں ان سے متصف نہیں ۔ حل لغات : قتورا : بخیل ، تنگ دل ، قتر سے بنا ہے جس کے معنی تنگی اور ضیق کے ہیں ۔ تسع ایت : تو معجزے جو فرعون کو دکھائے گے تھے ،