وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا
اور اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم نے تجھے ثابت قدم رکھا تو بلاشبہ یقیناً تو قریب تھا کہ کچھ تھوڑا سا ان کی طرف مائل ہوجاتا۔
پیغمبرانہ ذمہ داریاں : (ف ١) آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے ، اور بعض کے مکی اس اختلاف کی بنا پر واقعات بھی مختلف ہیں ، یہاں ثقیف والوں کا قصہ بیان کیا جاتا ہے ، کہ وہ چند رعایتوں اور خصوصیتوں کے طالب تھے ، جو اسلامی مساوات کے منافی تھیں ، اور مکہ میں حجر اسود کو قصہ یعنی مکے والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجبور کرتے تھے کہ جس طرح آپ اس پتھر کو بوسہ دیتے ہیں ، اسی طرح آپ ہمارے بتوں کا بھی احترام کریں ، تو کیا مضائقہ ہے ؟ اس آیت کا مفہوم بہرحال واضح ہے ، مخالفین چاہتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میٹھی میٹھی باتیں کر کے بہکا دیا جائے اور اسلام کی راہ اعتدال سے منحرف کردیا جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم اس باب میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، نبی اگر صرف انسانی ہو تو تمہارے حربے شاید کارگر ہو سکیں ، مگر وہ پیغمبر بھی ہوتا ہے یعنی نفس بشری کے ساتھ وہ نفس نبوی بھی رکھتا ہے اس لئے اس کو ورغلانا سخت دشوار ہے ، انبیاء کو خاص نوع کا ثبت واستقلال دیا جاتا ہے ، ان کا قلب جبرائیل کا مہبط ہوتا ہے ۔ ان کا دماغ مطلع انوار ہوتا ہے ۔ آیت کا یہ مقصد ہرگز نہیں ، کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی شرک کی جانب مائل ہوگئے تھے یا کفار کی حامی بھری تھی ، اور اللہ نے انہیں ان کے چنگل سے نکالا ، کیونکہ یہ معنی منصب نبوت کے منافی ہیں بلکہ غرض یہ ہے کہ مخالفین اسلام کی کوششیں یہی رہتی تھیں کہ وہ اپنے مقاصد مشومہ کی تکمیل کریں ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادہ مستقیم سے منحرف کردیں ، اور بات یہ ہے کہ وہ ضروری کامیاب بھی ہوجاتے جس حد تک ان کی مساعی کا تعلق ہے ، اگر آپ پیغمبر نہ ہوتے اور آپ کو اللہ کی جانب سے تثبت الہی کی نعمت نہ دی جاتی ۔ (آیت) ” ضعف الحیوۃ وضعف الممات سے غرض یہ بتانا ہے کہ نبی کی پیغمبرانہ ذمہ دادی کس حد تک اہم ہوتی ہے ، اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عام اختلافی سطح سے بہرحال مند ہو ۔ حل لغات : کادوا : کاد ، قرب واقع کے لئے سے وقوع ضروری نہیں ۔