أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا
یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے سینوں میں بڑی (معلوم) ہو۔ تو عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں دوبارہ پیدا کرے گا ؟ کہہ دے وہی جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا، تو ضرور وہ تیری طرف اپنے سر تعجب سے ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ کہہ امید ہے کہ وہ قریب ہو۔
(ف ١) مکہ والوں کا ایک شبہ آپ کی تعلیمات کے متعلق یہ تھا کہ اس میں حشر ونشر کے کوائف کا ذکر ہے ، وہ کہتے تھے ، یہ کیونکر ممکن ہے ، کہ مرا ہوا انسان جی اٹھے ، اور مردہ ہڈیوں میں حرکت وعمل پیدا ہوجائے ان کے خیال میں یہ زندگی جب ختم ہوجائے تو پھر اس کا اعادہ نہیں ہو سکتا ، اور ہم ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سو جاتے ہیں ، قیامت اور حشراجساد کا عقیدہ ان کے لئے نہایت حیرت انگیز تھا ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ، تمہیں اس میں کیا اعتراض ہے ، کیا اللہ نے تم کو کتم عدم سے لا کر وجود کی دنیا میں آباد نہیں کیا ہے ، کیا اس نے تمہیں بغیر کسی مادی ذریعہ کے پیدا نہیں کیا ؟ جب اسی نے اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا تھا ، تو وہ تمہیں پھر بھی زندگی بخش سکتا ہے ، جب حقائق واسباب کو اسی نے پیدا کیا ہے تو اس کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ ان کو بدل بھی دے وہ پتھر اور لوہے کو انسانوں میں تبدیل کرسکتا ہے ، اس لئے قرآن کہتا ہے ، کہ تم جو کچھ بھی ہوجاؤ تم میں لوہے اور پتھر کی سی سختی اور صلاحیت بھی پیدا ہوجائے تب بھی وہ تمہیں زندہ انسانی صورت میں تبدیل کر دے گا ، یہ سب کچھ اس کے اختیار میں ہے ۔ ” اللھم اغفر لکاتیبہ ولمن سعے فیہ ولوالد یھم اجمعین ، امین ‘ ثم امین ‘۔