فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
پھر جب تم اپنے حج کے احکام پورے کرلو تو اللہ کو یاد کرو، اپنے باپ دادا کو تمھارے یاد کرنے کی طرح، بلکہ اس سے بڑھ کر یاد کرنا، پھر لوگوں میں سے کوئی تو وہ ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
دو گروہ : (ف ١) اس کے بعد دو جاعتوں کا ذکر فرمایا ، ایک تو وہی ہیں جن کی دعائیں اور مطالبے صرف دنیا طلبی تک محدود رہتے ہیں ، جو سوا دنیا کی آسائش وکشائش کے اور کچھ نہیں چاہتے ، جو حرص وآز کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے طائر خواہشات کی پرواز بالکل سطح ارض تک ہے جو مادہ پرست ہیں اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے فرمایا ہو سکتا ہے ، ان کی دنیا میں سن لی جائے اور یہاں سیم وزر کے انبار کے انبار ان کے سپرد کردیئے جائیں لیکن یہ جان لیں کے آخرت یعنی دوسری زندگی میں ان کے لئے حصہ نہیں ، چونکہ اس دنیا میں ان کی خواہشیں بلند نہیں ہوتیں اور آخرت کے لئے عملا انہوں نے کچھ نہیں کیا ، اس لئے وہ اس سے زیادہ کے مستحق نہیں ، دوسرے وہیں جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی خیال رکھتے ہیں ، جو روح ومادہ کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں جن کی خواہشیں دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ آخری زندگی بھی ان کے مد نظر رہتی ہے ، وہ جہاں دولت وسرمایہ کے ڈھیر جمع کرتے ہیں ، وہاں زاد آخرت کا بھی حصہ وافر حاصل کرلیتے ہیں ، یہ لوگ زیادہ کامیاب ہیں ، ان کے ایک ہاتھ میں دنیا کی نعمتیں ہوتی ہیں اور دوسرے ہاتھ میں دین کی سعادتیں ، ان آیات میں بتلایا کہ مسلمان اور غیر مسلم میں فرق کیا ہے ، غیر مسلم کا نصب العین پست اور ذلیل ہوتا ہے اور مسلمان کی نظریں بلند ہوتی ہیں غیر مسلم کی ساری کاوشیں اور کوششیں مادی خواہشات کے لئے ہوتی ہیں ، اور مسلم دنیا کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے اور آخرت کے لئے بھی گویا ‘ نصب العین اور نتائج کے لحاظ سے مسلمان کافر سے اچھا رہتا ہے مسلم کے معروف معنی غلط ہیں ، وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے معنی دنیا کی نعمتوں سے محرومی ہے ‘ وہ اپنے خیال کی تصحیح کرلیں ، اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی افلاس کو پسند نہیں فرمایا ۔ حل لغات : مناسک : جمع منسک ۔ احکام حج ۔ خلاف : حصہ ۔ نصیب : بہرہ بخرہ ۔