ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِن بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر بے شک تیرا رب ان لوگوں کے لیے جنھوں نے وطن چھوڑا، اس کے بعد کہ فتنے میں ڈالے گئے، پھر انھوں نے جہاد کیا اور صبر کیا، یقیناً تیرا رب اس کے بعد ضرور بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
اسلام جرات آموز ہے ! (ف ١) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی راہ میں مصیبتوں کو برداشت کیا ، جنہوں نے گھر اور وطن کی آسائشوں کو چھوڑا جنہوں نے مسافرت اور ہجرت اختیار کی جنہوں نے نفس اور باطل قوتوں کے خلاف جہاد کیا ، ان کے لئے اللہ کی بخششیں اور عنائتیں ہیں وہی اس کی مغفرت اور رحمت کے مستحق ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بحالات مجبوری شر سے محفوظ رہنے کے لئے کفر کا اظہار جائز ہے ، بہتر نہیں ، یعنی اللہ ایسے اہل کفر پر مواخذہ نہیں کرے گا ، مگر اس کے یہ معنی نہیں ، کہ یہ فضیلت کی چیز ہے ، اس جواز کو جو مخصوص حالات میں قابل استفادہ ہے عام کردینا ، اور اسے فضیلت دینا دین فطرت کی توہین کرنا ہے ۔ اسلام جرات اور اظہار حق کو بہترین فضیلت قرار دیتا ہے ، وہ مسلمان کو مجاہد دیکھنا چاہتا ہے جو پوری جسارت کے ساتھ باطل کے خلاف صف آراء ہو سکے ، اور جو بزدل ہے ، جہاد سے جی چراتا ہے ، مجاہد نہیں کہلا سکتا ، یہ کمزوری اور بزدلی کا کھلا اعتراف ہے ، اسلام خفیہ فریب کاریوں کا قطعا پسند نہیں کرتا ، اس کی تعلیم واضح اور بین ہے وہ ہرگز تعلیمات وعقائد کو چھپانا نہیں چاہتا ۔