إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت والے کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
روح اخلاق : (ف ٢) اس آیت میں اسلام کی اساس تعلیمات کا ذکر ہے یعنی اللہ کے احکام کے خلاصہ ذکر کردیا ہے ، یہ حصہ مکارم اخلاق کا ہے ، بلکہ اسے اگر روح اخلاقی سے تعبیر کیا جائے تو بجا ہے ۔ عدل کے معانی میں اختلاف ہے ، حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں ، اس سے مقصود توحید ہے ، بعض کہتے ہیں دین متوسط یعنی اسلام ہے ، بعض کی رائے میں معاملات ہیں ، مساوات کا حکم ہے ، مگر لفظ عام ہے ، یہ تمام اصناف عدل پریکساں بولا جاتا ہے ، توحید اس لئے عدل ہے کہ یہی اعتدال وتوازن کی راہ ہے ، بت پرستی اپنی تمام جزئیات کے ساتھ مذموم ہے ، اور جہالت میں غلو مغالات ہے دین متوسط اس لئے ہی کہ اس سے قبل کے تمام ادیان میں افراط وتفریط ہے ، یہودیت میں کھراپن اور ظاہر یت زیادہ ہے ، تشدود تصنع کی آمیزش ہے عبادت میں شریعت سے بےنیازی ہے ، صرف اخلاقی نصائح کا ذکر ہے ، کوئی قانون اور قاعدہ نہیں ، مجوسیت نرا الحاد ہے ، آرین مذاہب میں تعین نہیں ، وہاں ہر بات موجود ہے خرافات وادہام کا حصہ بہت زیادہ ہے ، وہ مذہب جس میں ظاہریت بھی ہو اور روحانیت بھی اجمال اور شریعت کی تفصیل بھی ، معارف الہی کا ذکر بھی ہو اور فلسفہ وحکمت بھی ، تو وہ صرف اسلام ہے ، جو اعتدال وتوازن میں سمویا ہوا ہے ، کوئی بات زائد نہیں ، ہر حکم فطرت کے ترازو میں تلا ہوا ، اور قدرت کے پیمانہ میں نپا ہوا ہے ۔ عدل کے معنے معاملات میں مساوات کے عام طور پر ہیں عرض یہ ہے کہ مسلمان پیکر انصاف ہو ، معدلت شعار ہو ، احسان مرتبہ اخلاص کا دوسرا نام ہے ، معاملات میں احسان کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم اپنے فرائض منصبی سے زیادہ کچھ کریں ، اس کے بعد اللہ کا حکم یہ بھی ہے کہ اقرباء کی خدمت کی جائے ، ان سے مروت ومراعات کا سلوک کیا جائے ان کو ہر طرح پر ترجیح دی جائے ، برائیوں اور فواحش سے باز رہنے کی بھی تلقین ہے ” فحشآء “ پس ہر وہ برائی مراد ہے جو نمایاں اور ظاہر ہے ہو ، منکر کے معنے اس عیب کے ہیں جسے قلب وضمیر برا سمجھے غرض یہ ہے کہ مسلمان اخلاق کا نہایت بہتر نمونہ ہو ۔