وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
اور انھیں قتل کرو جہاں انھیں پاؤ اور انھیں وہاں سے نکالو جہاں سے انھوں نے تمھیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں، پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، ایسے ہی کافروں کی جزا ہے۔
شرارگ جنگ سے زیادہ خطرناک ہے : (ف ١) فتنہ کے معنی ابتلا وآزمائش کے ہیں ، کفار مکہ نے مسلمانوں پر اتنی سختیاں روا رکھیں کہ وہ سخت امتحان میں پڑگئے وہ سوچنے لگے کہ کیا کریں کیا وہ ان ادہام وظنون کو قبول کر کے راحت کی زندگی بسر کریں یا خدا کی راہ میں جان دے دیں اور شہادت کے درجہ عظمی کو حاصل کریں ۔ قرآن حکیم نے کفار مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ پوزیشن ناقابل برداشت ہے ، شرارت جب اس حد سے بڑھ جائے تو پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے اور جنگ اس صورت میں یقینا اس مسلسل وپہیم شرارت وفتنہ انگیزی سے کہیں کم اہمیت رکھتی ہے ، اس لئے جب انہوں نے تمہیں گھروں سے نکال دیا اور تکلیف پر تکلیف پہنچا رہے ہیں تو تم بھی مردانہ وار میدان میں نکل آؤ اور انہیں کچل دو ، جہاں پاؤ قتل کرو ۔ ان نااہلوں کی یہی سزا ہے البتہ حرم کے قرب ونواح میں جنگ نہ ہو ، اور اگر وہ مجبور کریں تو پھر وہاں بھی کوئی مضائقہ نہیں جنگ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ اس شرارت کا کلی استیصال نہ ہوجائے اور پرامن فضا نہ پیدا نہ ہوجائے ، جس میں ایک خدا کی کھلے بندوں پرستش کی جائے اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم بھی رک جاؤ