وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی، جس سے تم نشہ آور چیز اور اچھا رزق بناتے ہو۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً ایک نشانی ہے جو سمجھتے ہیں۔
(ف ٢) یعنی اللہ تعالیٰ قطب ماہیت پر قادر ہیں ، وہ چاہیں تو کفر وعناد کو محیت وعقیدتمندی سے بدل دیں ، انکار وکفر کو دم میں ایمان یقین کا لباس پہنا دیں ، وہ بنجر اور شور زمینوں کو زندہ کردیتا ہے خشک کھیت اور باغات بارش کی وجہ سے لہلہا اٹھتے ہیں ، گوشت اور خون میں سے سفید دودھ جیسی لطیف شے پیدا کردیتا ہے ، کھجور اور انگور میں طرح طرح کے مزے اور غذائیت رکھی ہیں ، اسی طرح یہ ممکن ہے کہ وہ دلوں کے خبث کو ایمان کی لطافت سے تبدیل کر دے ، ” سکرا “ کے معنی عام مترجمین نے شراب کے کئے ہیں اور کہا ہے کہ بعد کی آیات میں اسے منسوخ قرار دیا ہے ، مگر یہاں مشکل یہ ہے کہ ” سکرا “ کے لفظ کو بطور اظہار نعمت کے ذکر کیا ہے اور جو چیز نعمت ہے وہ کبھی حرام نہیں ہو سکتی ، قرآن کی شان کے خلاف ہے کہ کسی حرام ہونے والی چیز کی تعریف کرے ، بائبل میں یہ نقص ہے کہ اس میں بےشمار الفاظ تشبیہات و متعارات کے رنگ میں ایسے موجود ہیں جو مے نوشی پر آمادہ کرتے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کوئی اچھی چیز ہے یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب نے کبھی شراب سے احتراز نہیں کیا ۔ مگر قرآن میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں جس میں شراب نوشی کو اچھا شغل قرار دیا ہو ، قرآنا کا انداز بیان بالکل اچھوتا اور نہایت لطیف وپاکیزہ ہے ۔ اس لئے سکرا کے معنی شراب یا مسکر شے کے نہیں ہو سکتے ، ابو عبیدہ (رض) کہتے ہیں اس کے معنی مطلقا طعام کے ہیں جو صحیح ہیں ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس معنی کی تائید کی ہے اور تائید میں ایک شعر پیش کیا ہے جو کہتا ہے : جعلت اعراض الکرام سکرا : یعنی تونے لوگوں کی دعوتوں کو طعام سمجھ کر کھا لینے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ حل لغات : سائغا : خوشگوار ۔