وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اور جن لوگوں نے اللہ کی خاطر وطن چھوڑا، اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، بلاشبہ ہم انھیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھکا نادیں گے اور یقیناً آخرت کا اجر سب سے بڑا ہے۔ کاش! وہ جانتے ہوتے۔
ضمیر وقلب کی مظلومیت ناقابل برداشت ہے : (ف ١) یہ آیت حضرت صہیب ‘ بلال ، عمار ، خباب ، عابس ، اور عمیر کے حق میں نازل ہوئی ، بات یہ تھی ، مکہ والوں نے اسلام قبول کرنے پر ان لوگوں کو بہت سخت سزائیں دیں ، بلال (رض) کی پیٹھ پر دہکتے ہوئے کوئلے رکھے ، حضرت عمار (رض) کی تکلیفوں کو دیکھ کر حضور نے فرمایا صبرا یا آل یاسر ۔ صہیب نے اپنی ساری جائداد دے دی جب جاکر شدائد سے رہائی حاصل کی ۔ جب ان لوگوں پر حد سے زیادہ سختیاں ہونے لگیں اور مسلمان مظلومیت کی زندگی بسر کرنے لگے ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگ مکہ چھوڑ دیں ، اور اپنے لئے کوئی وطن اختیار کرلیں ، کیونکہ اسلام میں ضمیر کی مظلومیت ومجبوری ناقابل برداشت ہے ، مسلمان ہر طرح کی آزمائش کو جھیل سکتا ہے ، ہر تکلیف کو برداشت کرسکتا ہے ، مگر ضمیر وقلب کی مجبوریاں ناقابل احتمال ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی مسلمان اظہار حق سے باز آجائے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخص جو اللہ کے لئے اپنی آسائشوں کو چھوڑے گا ، محض دین کے لئے وطن عزیز کو ترک کرے گا اور ہمیشہ کے لئے وطن سے دوری قبول کرے گا ، اللہ اس کے ایثار کو ضائع نہیں کرے گا ، اسے اجر دے گا ، اس کی دنیا سنوار دے گا ، اور آخرت میں اس کے لئے اجر عظیم مستزاد ہوگا ۔ یہ بات دیکھنے اور سمجھنے کی ہے ، کہ صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے جب مکہ چھوڑ دیا ، اور مدینہ کو وطن قرار دیا ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں کس درجہ عظیم الشان زندگی عنایت کی ، وہ لوگ جو گھروں کو چھوڑ گئے تھے ، ملکوں اور قوموں کے وارث ہوئے ، اور پھر مکہ میں جو داخل ہوئے ہیں ، تو فاتحانہ انداز میں حق یہ ہے کہ جو لوگ رب کریم پر بھروسہ کرتے ہیں اللہ انہیں ضرور اپنی گوناگون رحمتوں سے مشرف فرماتا ہے ۔