قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
یقیناً ان لوگوں نے تدبیریں کیں جو ان سے پہلے تھے تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا۔ پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔
چاہ کن را چاہ درپیش ! (ف ١) پہلے لوگوں کے حالات بیان فرمائے ہیں کہ انکار وتمرد کی عادتیں پرانی ہیں ، ابتداء سے بعض بدبخت ایسے موجود ہیں رہے ہیں جنہوں نے کفر وعناد سے حصہ وافر پایا ہے ۔ اور حق کے خلاف سازشیں کی ہیں شمع ہدایت کو گل کرنے کی سعی کی ہے ، گلشن حق وصداقت کی بربادی کے منصوبے باندھے ہیں ، مگر اللہ نے انہیں کے دام میں انہیں گرفتار کیا ہے ، جس طریق سے انہوں نے حق پرستوں کے خلاف عناد کا اظہار کیا ہے ، اسی طریق سے اللہ نے انکو بربادی کی راہیں دکھائی ہیں ۔ اس آیت میں تمثیل کے ذریعے اس حقیقت کو سمجھایا ہے کہ فرض کرو ، کہ ایک شخص نے ایک بڑا قلعہ طیار کیا ہے ، تاکہ اس کے ذریعے حق پرستوں کی مخالفت کرے ، ان کو شکست دے ، اللہ تعالیٰ کی تدبیر یہ ہے کہ وہی قلعہ ان لئے بربادی کا سامان بن جائے ، قلعہ کی چھت گر جائے ، دیواریں اپنی جگہ سے آڑہیں ۔ اس سورت میں یہی حصارحفاظت ان کے لئے مصیبت و عذاب کی شکل اختیار کرلے ، (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم “۔ ہلاکت سے تعبیر ہے ، ورنہ اللہ کے لئے آنا جانا کے الفاظ بےمعنی ہیں ۔ بعض مفسر ان کی رائے میں اس آیت میں ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس میں اختلاف ہے کہ وہ کون ہے اس آیت میں جس کی بربادی کا ذکر ہے بعض کے نزدیک نمرود ہے جس نے ایک نہایت اونچا اور بلند محل طیار کیا تھا ، تاکہ اللہ سے جنگ کرے بعض کی رائے میں بخت نصر ہے ، بعض کے خیال میں کوئی قبطی فرمانروا ہے ، بہرحال آیت میں عموم ہے اور کسی خاص واقعہ کی تاویل کے لئے ضرورت نہیں ۔