لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ
اپنی آنکھیں اس چیز کی طرف ہرگز نہ اٹھا جس کے ساتھ ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو فائدہ دیا ہے اور نہ ان پر غم کر اور اپنا بازو مومنوں کے لیے جھکادے۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے دو پہلو : (ف ٣) قرآن حکیم کے جس قدر احکام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کی یہ تصویر ہے ، اور امت کو ان کے اسوہ کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں ، ایک تو یہ کہ آپ دنیا کے تکلفات پر ریجھے ہوئے نہیں طبیعت میں انتہاء درجہ کا استغا ہے ، اور ایک یہ کہ آپ مسلمانوں کے لئے آیہ رحمت ہیں آپ کے دل میں امت کے لئے شفقت کا بےپناہ جذبہ موجزن ہے ۔ غور فرمائیے ، حضور دعوت عام دے چکے ہیں ، مخالفت کی آگ بھڑک چکی ہے ، لوگوں نے ابو طالب سے کہ اپنے بھتیجے کو سمجھا لو ، ورنہ ہم تم سے بھی تعرض کریں گے ، ابوطالب نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت حال سے آگاہ کیا آپ نے فرمایا چچا اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ ماہتاب رکھ دیں ، جب بھی میں دعوت توحید سے نہیں رک سکتا ، کس قدر استغنا ہے قوم سونے چاندی کے ڈھیر نذر کرتی ہے حسین وجمیل رشتے پیش کئے جاتے ہیں مگر حضور آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ، رحمت ورافت کا یہ عالم ہے ، کہ وہ لوگ جو منافق ہیں ، آپ کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں ، ان سے ہر طرح اغماض وچشم پوشی کرتے ، عبداللہ ابن ابی مرتا ہے ، تو آپ پیراہن مبارک تبرک کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔