وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ
اور ہم نے ہواؤں کو بار آور بناکر بھیجا، پھر ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے تمھیں وہ پلایا اور تم ہرگز اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں۔
(ف ١) ان آیات میں تذکیر بآیات اللہ کے اصول کے موافق اللہ نے مظاہر مدبرت کی جانب توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ تم ان فطرت کے کرشموں پر غور کرو ، تمہیں یقین آجائے گا کہ اللہ نے ان چیزوں کو بےفائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے ، اس سلسلہ میں ایک عجیب چیز یہ بتائی ہے کہ ہوائیں جو پائی برساتی ہیں تو وہ پانی یہیں سے لیتی ہیں ۔ اور حاملہ عورت کی طرح وقت پر قطرات بارش کی ولادت ہوتی ہے ۔ یہ حقیقت اس وقت ظاہر فرمائی ہے جب عرب بارش کی متعلق صرف اس قدر جانتے تھے کہ آسمان پر دریا بہتے ہیں اور وہی سے پانی آتا ہے اور ہوائیں اسی پانی سے بوجھل ہو کر برستی ہیں ، علاوہ ازیں تشبیہ کس قدر عجیب ہے گویا سورج اور پانی کی جنسی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے کہ ہوائیں اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں اور ایک وقت منفرد پر برس جاتی ہیں ۔