إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز حرام کی ہے جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے، پھر جو مجبور کردیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
زندہ رہنے کی کوشش کرو : (ف ٢) محرمات کے سلسلے میں مفصل بتایا جا چکا ہے کہ اس میں ذوق سلیم صحت انسانی اور اخلاق کا خیال رکھا گیا ہے ، اس لئے محرمات کی جو فہرست بتائی ہے ‘ اس کے لئے دلائل کا ذکر غیر ضروری سمجھا ہے ، کیونکہ ہر شخص جسے ذوق صحیح سے بہرہ وافر ملا ہو ‘ وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کی حرمت بین وظاہر ہے ، سب سے پہلے مردار کی حرمت کو لیجئے کیا کوئی مہذب اور شائستہ قوم مردار کھالے کے لئے آمادہ ہو سکتی ہے ، یہ ازمنہ وحشیہ کی یادگار ہے ، چنانچہ اب بھی وہ قومیں جو تہذیب وتمدن کی برکات سے محروم ہیں ، مردار کھاتی ہیں اور شرفاء اسی وجہ سے ان سے نفرت کرتے ہیں نیز مردار خوری سے پست وذلیل قسم کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں جن میں کوئی زندگی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ مردار خوار قومیں ادنی درجہ کی عادات میں مبتلا رہتی ہیں ، خون کھانا بھی اسی قبیل سے ہے ، اس میں بھی وحشت وبربریت مترشح ہے اور اس سے خوانخواری کے جذبات بڑھتے ہیں ۔ نیز خون صحت انسانی کے لئے سخت مضر ہے ، بالخصوص معدے اور دانتوں کے لئے ، عرب خون کو باقاعدہ منجمد کرکے کھاتے تھے اس لئے اس کا ذکر فرمایا سور کے کھانے میں کئی خرابیاں ہیں ، ایک تو یہ کہ اس کے گوشت میں جراثیم کثرت سے ہوتے ہیں جنہیں رودۃ الخنزیر کہتے ہیں اور وہ مضر ہوتے ہیں ، دوسرے اس سے قلب کے گردا گرد ایک خاص قسم کی چربی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قلب کی حرکت میں خلل آجاتا ہے ، اسے ” تشحم “ کہتے ہیں ، اطبائے امریکہ کا خیال ہے کہ فوری موت جو حرکت قلب بندہ ہونے سے واقع ہوتی ہے اکثر وبیشتر نتیجہ ہوتی ہے سور کھانے کا یہی وجہ ہے کہ وہاں کی ایک سوسائٹی نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ہے اور وہ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔ اور ایک وجہ یہ ہے کہ خنزیر کھانے سے بےغیرتی پیدا ہوتی ہے دیکھ لو خنزیر کھانے والی قومیں غیرت وحمیت کے تمام جذبات سے محروم ہیں اور فواحش ان میں حد اعتدال سے بڑھ رہا ہے ، (آیت) ” وما اھل “ میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جنہیں غیر اللہ کے ناموں پر تبرکا مشہور کیا جائے ، یہ اس لئے کہ ایسی چیزیں گو فی نفسہ حلال ہوں ، لیکن شرک پھیلانے کا موجب بنتی ہیں ۔ اس کے بعد مخصوص حالات میں جب کہ ہم مجبور ہوجائیں اور ہمارے سامنے موت وحیات کا سوال در پیش ہو ‘ بقدر ضرورت ان کے استعمال کی اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ مسلمان کی جان بہرحال عزت واحترام کے قابل ہے لیکن یہ وہ وقت ہوگا جبکہ ایک طرف کامل اضطرار ہو مثلا سخت بھوک ہو اور سوائے ان محرمات کے کوئی چیز میسر نہ ہو اور موت کا خدشہ بلکہ یقینی ہو ، دوسروی طرف اس کا یقین ہو کہ ان کے استعمال سے میں بچ سکتا ہوں ، اس کے علاوہ معمولی حالات میں جب کہ ان کا بدل مل سکے اور شفاء قطعی نہ ہو ، استعمال ممنوع ہے ۔